پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) نے آڈیٹر جنرل آف پاکستان (اے جی پی) کو سپریم کورٹ کے بجٹ کا آڈٹ کرنے، تنخواہوں، مراعات و سہولیات اور عدالتِ عظمیٰ کے ججوں کو الاٹ کیے گئے پلاٹوں سے متعلق جامع رپورٹ پیش کرنے کا حکم دے دیا۔
پی اے سی کے چیئرمین نور عالم خان نے اے جی پی محمد اجمل گوندل کو 30 مارچ تک رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ معاملہ پہلے ہی کافی تاخیر کا شکار ہوچکا ہے، مزید وقت نہیں دیا جائے گا۔
چئیرمین پی اے سی نور عالم خان نے اجمل گوندل کو یاد دلاتے ہوئے کہا کہ ”ہمیں یہ بھی نہیں معلوم کہ ججز کتنی تنخواہ لے رہے ہیں“، اس حوالے سے پارلیمنٹ کا احتساب فورم ابھی تک جواب کا انتظار کر رہا ہے۔
انہوں نے استفسار کیا کہ اے جی پی صاحب، پبلک اکاؤنٹس کمیٹی پوچھنا چاہتی ہے کہ عوام اور سرکار کا پیسہ کہاں اور کتنا خرچ ہو رہا ہے، کتنی تنخواہ (ججوں کو) دی جا رہی ہے اور انہیں کیا مراعات اور سہولیات دی جا رہی ہیں۔نور عالم خان نے مزید کہا کہ، ”میں نے بارہا یہ تفصیلات مانگی ہیں“، ہر جج کے بارے میں تفصیلات بتائیں اور بتائیں کہ انہیں کتنے پلاٹ دیے گئے ہیں۔ آپ کو ہمیں رپورٹ پیش کرنی ہوگی اور ہم اس میں مزید تاخیر نہیں ہونے دیں گے۔
صوبائی انتخابات اور اسنیپ پولز کے بارے میں بات چیت کے درمیان، چئیرمین پی اے سی نے ایک موقع پر یہ کہتے ہوئے کہ ”ہم اگست تک یہاں موجود ہیں“، امید ظاہر کی کہ حکومت اپنی مدت پوری کرے گی۔
رپورٹ جمع کرانے کے لیے 30 مارچ کی آخری تاریخ مقرر کرنے سے پہلے سپریم کورٹ کے آڈٹ کے حکم کے بارے میں کھس پھساہٹیں سنتے ہوئے نور عالم خان نے کہا کہ کسی نے تو ایسا کرنا ہے، تو ”میں یہ آڈٹ شروع کر رہا ہوں۔“
اس کے بعد انہوں نے باضابطہ طور پر حکم دیا کہ ”پبلک اکاؤنٹس کمیٹی ہدایت دیتی ہے کہ سپریم کورٹ کا آڈٹ کیا جائے“۔
سپریم کورٹ کے آڈٹ سے متعلق ہدایات فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے آڈٹ پیراگراف کا جائزہ لینے کے لیے بلائے گئے پی اے سی کے اجلاس کے دوران سامنے آئیں۔
میٹنگ کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ ایف بی آر سیکیورٹی خدشات کا حوالہ دیتے ہوئے اے جی پی آفس کو آڈٹ کے لیے اپنے ڈیٹا تک رسائی دینے سے گریزاں ہے، اور کہتا ہے کہ وہ اے جی پی کو کمپیکٹ ڈسک (سی ڈی) میں ڈیٹا دینے کے لیے تیار ہے۔
سیکیورٹی خدشات پر مسلم لیگ (ن) کے شیخ روحیل اصغر نے کمیٹی کو یاد دلایا کہ ایف بی آر کا ڈیٹا کچھ عرصہ قبل ہیک ہوا تھا۔
ایم این اے ملک مختار احمد نے مزید کہا کہ ایف بی آر کا ڈیٹا نہ صرف ہیک کیا گیا بلکہ اسے ڈارک ویب پر 10,000 ڈالر میں فروخت کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ ہیکنگ اس لیے ہوئی کیونکہ ایف بی آر پائریٹڈ سافٹ ویئر استعمال کر رہا تھا۔
آڈٹ پیراگراف کو دیکھتے ہوئے، جمیعت علمائے اسلام (ف) کی شاہدہ اختر علی نے نوٹ کیا کہ حکومت حال ہی میں 170 ارب روپے کا ”منی بجٹ“ لائی ہے، لیکن ایک سال کے لیے ایف بی آر کے 20 آڈٹ پیراگراف کی کل رقم 143 ارب روپے کے برابر تھی۔
اس پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہ یہ ایک ایسے محکمے کی صورتِ حال ہے جو پورے ملک کے مالیاتی مسائل سے نمٹتا ہے، مختار احمد نے کہا کہ طویل قانونی چارہ جوئی کی وجہ سے رقم کی قدر تیزی سے کم ہو رہی ہے۔
چیئرمین ایف بی آر عاصم احمد نے ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ کمیٹی یہ بھی دیکھے کہ اپیلوں اور قانونی چارہ جوئی کے بعد کتنی رقم رہ گئی۔
اس سوال کے جواب میں کہ کیا ایف بی آر اپنا سالانہ ٹیکس ہدف حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گا؟ عاصم احمد نے اس عزم کا اظہار کیا کہ ایف بی آر ہدف حاصل کر لے گا، امید ہے کہ جب انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) ڈیل بحال ہو جائے گی تو درآمدی دباؤ کم ہو جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ معاشی طور پر اس مہینے کے آخر تک حالات بہتر ہونا شروع ہو جائیں گے۔
دیگر معاملات کے درمیان، کمیٹی نے افغانستان میں ڈالر کی اسمگلنگ اور ایران سمیت پڑوسی ممالک سے اسمگل کیے جانے والے سامان کے معاملے پر بھی بات کی۔
پی اے سی کی رکن نزہت پٹھان نے زائرین کو ایران لے جانے والی بسوں کے ذریعے سامان کی اسمگلنگ کا معاملہ اٹھایا، الزام لگایا کہ کسٹم اور ایجنسیوں کے اہلکار رشوت لے کر کلیئرنس دیتے ہیں۔
نزہت پٹھان نے سوال کیا کہ ایف بی آر کو یہ سب کیوں نظر نہیں آتا۔ ”ایف بی آر کی موجودگی صرف مطلع شدہ چیک پوسٹوں پر ہے۔“
ایف بی آر کے چیئرمین نے جواب دیا، ایف بی آر کے پاس سرحدوں پر اس قسم کی رسائی نہیں ہے۔
پی اے سی کے چیئرمین نے مزید کہا کہ ہر بار کسی خاص ادارے کے پیچھے جانا درست کام نہیں تھا۔
عاصم نے پی اے سی کو یہ بھی بتایا کہ انہوں نے حال ہی میں وزیر اعظم شہباز شریف کے سامنے اسمگلنگ کا معاملہ اٹھایا ہے اور انہیں بتایا ہے کہ وزارت داخلہ کو انسداد اسمگلنگ سرگرمیوں کے لیے فوکل منسٹری بنایا گیا تھا، لیکن بعد میں ایف بی آر سے اسمگلنگ کا جواب طلب کیا جاتا ہے۔
انہوں نے انکشاف کیا کہ وزیراعظم نے یہ جواب دیا ہے کہ اس حوالے سے ایف بی آر کو جلد فوکل ڈیپارٹمنٹ بنایا جائے گا۔
ممبر کسٹمز آپریشنز مکرم جاہ انصاری نے پی اے سی کو آگاہ کیا کہ ڈالرز افغانستان میں اسمگل کیے جانے کے بارے میں حقیقت سے زیادہ افواہیں پیدا کی گئیں۔
ان کا کہنا تھا کہ کسٹم حکام نے کرنسی اسمگلنگ کے درجنوں کیسز ضبط کیے ہیں جن میں سے ہر ایک کی رقم تقریباً 5000 اور 8000 ڈالر ہے۔
مکرم جاہ انصاری نے کہا کہ گزشتہ سال ہوائی اڈوں اور سرحدی علاقوں سے 4.5 ملین ڈالر کی کرنسی، جس میں یورو، پاؤنڈ اور دیگر شامل ہیں، ضبط کیے گئے ہیں۔
اس پر ایک رکن نے کہا کہ صنعتوں کے لیے لیٹر آف کریڈٹ بند ہو چکے ہیں لیکن کرنسی کی اسمگلنگ جاری ہے۔