سپریم کورٹ نے بازیاب بچیوں کو والدہ ڈاکٹر مہرین بلوچ کے حوالے کرنے کا حکم دے دیا ، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے خفیہ ایجنسیوں سے بچیوں کے اغوا میں ملوث کرداروں کو سامنے لانے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ بچیوں کو 6 سال تک غائب رکھنا وڈیرا سسٹم میں ہوتا ہے، قانونی بالادستی رکھنے والے ملک میں نہیں۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے ڈاکٹر مہرین بلوچ کی بچیوں کی بازیابی سے متعلق کیس کی سماعت کی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ موجودہ کیس میں بچوں کے حقوق کا قانون واضح کرنا ہے، بچیوں کو 6 سال تک اغواء رکھ کر غلط کیا گیا، بچیوں کو 6 سال تک غائب رکھنا وڈیرا سسٹم میں ہوتا ہے،قانونی بالادستی رکھنے والے ملک میں نہیں۔
جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ اب تک کیس میں کیا پیش رفت ہوئی ہے ؟ جس پر ڈی آئی جی سندھ نے بتایا کہ ڈاکٹر مہرین بلوچ کی 2 بچیوں کے اغواء میں والد سمیت 13 افراد نے اعانت کی، بچیوں کے والد نے جے آئی ٹی ختم کرنے اور میرے خلاف درخواستیں دائر کر رکھی ہیں۔
جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے ڈی آئی جی کے خلاف درخواستیں فوری طور پر واپس لینے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ ڈی آئی جی نے بچیوں کی بازیابی میں تمام کارروائی عدالتی حکم پر کی۔
وکیل علی احمد کرد نے موقف اپنایا کہ والد بچیوں کا حقیقی سرپرست ہوتا ہے، اس کے خلاف کارروائی نہ کی جائے۔
جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کرد صاحب! آپ بہت جوشیلے ہیں، تھوڑا جوش بچیوں کے بنیادی حقوق کے لئے بھی دکھائیں۔
عدالت نے بچیوں کی ماہر نفسیات سے کونسلنگ بھی جاری رکھنے کا حکم دیتے ہوئے کیس کی سماعت رمضان کے بعد تک ملتوی کر دی۔