چند روز قبل اٹلی میں ہونے والے کشتی کے حادثے میں پاکستان میں فٹبال اورہاکی کی معروف کھلاڑی شاہدہ رضا بھی جاں بحق ہونے والوں میں شامل تھیں جنہوں نے اس پُرخطرراستے کا انتخاب بیٹے کی معذوری کی وجہ سے کیا تھا۔
کوئٹہ کے علاقے مری آباد کی رہائشی شاہدہ کا تعلق ہزارہ برادری سے تھا، سعدیہ کا 3 سالہ معذوربیٹا حادثے کے وقت ان کے ساتھ نہیں تھا۔
سعدیہ رضا ، شاہدہ کی بہن ہیں جنہوں نے برطانوی نشریاتی ادارے سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ شاہدہ انتہائی خوش مزاج تھیں اور وہ سب کو ہنساتی تھیں لیکن معذور بیٹے کے لیے روتی تھیں، ان کی خواہش تھی کہ بس بیٹےکا علاج ہوجائے۔
شاہدہ رضا نے اسکول کے زمانے سے ہاکی کھیلنا شروع کیا اور کالج جا کر بلوچستان سے ہاکی ٹیم کی نمائندگی کی، ساتھ ہی فٹبال کے میدان میں بھی نہ صرف ملکی بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی بلوچستان کی نمائندگی کی۔
شاہدہ کی بہن نے مزید بتایا کہ ہم مزید 3 بہنیں ہیں اور ہمارا ایک بھائی ہے جس کی عمر 13سال ہے۔ شاہدہ مجھ سے 4 سال بڑی تھیں اورہماری بہن نہیں دوست تھیں جو ہمیشہ ہمیں خوش رکھنے کے لیے ہنساتی تھیں لیکن خود اپنے بچے کے لیے غمگین رہتی تھیں۔
بات چیت کے دوران سعدیہ رضا کئی مرتبہ آبدیدہ ہوئیں۔ انہوں نے کہا کہ 3 سالہ بیٹے کو پیروں پرکھڑا دیکھنا بس شاہدہ کا سب سے بڑا مقصد اور مشن تھا۔ بچہ 40 دن کا تھا تو اسے بخارہوا اوراسی دوران ایک جھٹکے کے ساتھ وہ بے ہوش ہوگیا۔ وہ بچے کو کراچی علاج کے لیے لے گئیں، بچہ ہوش میں تو آگیا لیکن ڈاکٹرز نے کہا کہ اس کی معذوری کا علاج پاکستان میں نہیں ہوسکتا لیکن بیرون ملک لے جایا جائے توعلاج ممکن ہے’۔
بہن کے مطابق ، ’ شاہدہ کے بیرون ملک جانے کا اس کے علاوہ کوئی مقصد نہیں تھا کہوہاں جاکرکچھ پیسے کمائے اور کسی طرح اپنے بچے کو وہاں بلاکر اس کا علاج کروا سکے۔’
سعدیہ رضا کے مطابق شاہدہ قانونی طورپرترکی گئی تھی اور ہماری اس سے بات بھی ہوئی تھی، وہاں وہ بالکل اکیلی تھیں اور ہمیں یہ علم نہیں کہ ترکی سے آگے وہ کِن لوگوں کے ساتھ گئیںتاہم کشتی میں سفر کے دوران سعدیہ کی کال آئی تھی۔ سفر کے چوتھے روز وہ بہت خوش تھی اور کہہ رہی تھی کہ بس تھوڑی دیرمیں پہنچنے والی ہیں۔ وہ بار باراللہ تعالیٰ کا شکرادا کررہی تھی۔ اس کال کے بعد کوئی رابطہ نہیں ہوا۔
انہوں نے کہا کہ شاہدہ کی موت کی خبر انٹرنیٹ کے ذریعے ملی جو ہمارے لیے قیامت سے کم نہیں تھی۔ بہن اب دنیا میں نہیں رہی تو ہماری سب سے درخواست ہے کہ لاش وطن واپس لانے میں ہماری مدد کی جائے۔
شاہدہ کی قریبی دوست اور رشتہ دارسمعیہ مشتاق نے بتایا کہ شاہدہ نے 2003 سے اسپورٹس میں حصہ لینا شروع کیا اور اسے ہی اپنا اوڑھنا بچھونا بنا دیا۔ میں اورشاہدہ دونوں پاکستان آرمی کی جانب سے فٹ بال کھیلتی تھیں اور شاہدہ کا شمار بلوچستان کے فٹ بال کے سب سے سینیئر کھلاڑیوں میں ہوتا تھا۔
سمعیہ مشتاق نے مزید بتایا کہ ’ڈاکٹروں کے مطابق بچے کا دماغ 50 فیصد تک کمزورہے اوراس کے لیے چلنا پھرنا مشکل ہے۔ کھلاڑی ہونے کے ناطے شاہدہ رضا چاہتی تھی کہ اس کا بچہ کھیلے کودے لیکن مفلوج ہونے کے باعث ایسا ممکن نہیں تھا جس پروہ کُڑھتی تھی اور اس کی ساری کوشش اور خواہش یہی تھی کہ بچہ کسی طرح اپنے پیروں پر کھڑا ہوجائے‘۔
دوست کے مطابق، ’شاہدہ نے اپنے بچے کے علاج کے لیے کسی سے مدد نہیں مانگی بلکہ کھلاڑی ہونے کے ناطے اپنی ملازمت سے ملنے والا پیسہ بچے کے علا ج پرخرچ کرتی رہی۔ 2022 میں ملازمت ختم ہوگئی تو بچے کے حوالے سے پریشانیوں میں بہت زیادہ اضافہ ہوگیالیکن افسوسناک بات ہے کہ کسی نے اس کا ساتھ نہیں دیا۔ بچے کے علاج کے لیے کہیں سے سہارا نظر نہ آنے کے باعث شاہدہ نے بیرون ملک جانے کی کوشش کی لیکن اس کوشش میں زندگی کی بازی ہارگئی۔
انہوں نے مزید بتایا کہ، ’شاہدہ ان لوگوں میں سے تھیں جنہیں حقیقی معنوں میں سیلف میڈ کہاجاسکتا ہے۔ وہ اکثر کہتی تھیں کہ جو بھی کروں گی، اپنے بل بوتے پر کروں گی اور اس نے کرکے دکھایا۔ نہ صرف اپنا نام روشن کیا بلکہ بلوچستان اور ملک کا نام بھی روشن کیا۔شاہدہ نے ایران، بھارت، بھوٹان، بنگلہ دیش سمیت بعض دیگر ممالک میں بلوچستان اور ملک کی نمائندگی کی‘۔
شاہدہ کے ساتھ کھیلنے والی بلوچستان میں فٹ بال کی کھلاڑی اقصیٰ نے کہا کہ ’آپ نے دنیا میں بہت کم کھلاڑی دیکھے ہوں گے جوکہ بیک وقت دو کھیلوں میں نام پیدا کرنے والے ہوں۔ لیکن شاہدہ نے یہ کرکے دکھایا۔‘