سپریم کورٹ آف پاکستان نے پنجاب اور خیبرپختونخوا انتخابات کے حوالے سے اپنا فیصلہ سنا دیا ہے، لیکن جس بینچ نے اس ازخود نوٹس کی سماعت کی اس پر ابہام پیدا ہوگیا ہے، حکومت کا کہنا ہے کہ یہ چار تین کا فیصلہ ہے یعنی سات کا بینچ ہے، جبکہ اپوزیشن یعنی تحریک انصاف کہہ رہی ہے کہ یہ تین دو کا فیصلہ یعنی پانچ کا بینچ تھا۔
اس حوالے سے آج نیوز کے پروگرام ”فیصلہ آپ کا“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف قانون دان اور پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ ’دو تین دن کیس چلتا رہا، مجھے ایک آدمی بتائیں جو اس کورٹ روم سے نکلا ہو اور اس نے کہا ہو کہ وہاں سات جج بیٹھے تھے، کوئی رپورٹر، صحافی یا کیمرا مین ایسا نہیں جس نے باہر نکل کر کہا ہو کہ سات جج تھے، ظاہر ہے وہاں پانچ جج بیٹھے تھے۔
اعتزاز احسن نے بتایا کہ پانچ جج کے بینچ کا جو اقلیتی فیصلہ ہے، اس میں بھی جسٹس منصور علی شاہ صاحب فٹ نوٹ میں تسلیم کرتے ہیں کہ بینچ ری کونسٹی ٹیوٹ (دوبارہ تشکیل) ہوا تھا۔ یہ نو کا بینچ تھا جو دوبارہ ری کونسٹی ٹیوٹ ہوا۔ تشکیل نو کے بعد اب یہ نیا بینچ ہے۔ اس نے وہ بحث سنی۔
انہوں نے کہا کہ فیصلے کے پہلے جملے میں کہا گیا ’تین دو کی اکثریت سے‘، اور ان دو ججز کے نام آگے دئے۔
اعتزاز احسن نے کہا کہ ’مجھے خوف ہے دو جج صاحبان کے خلاف کوئی ریفرنس فائل کر دے گا جو بینچ میں موجود نہیں تھے اور اس میں گنتی کروانا چاہتے ہیں۔ سپریم کورٹ کی ججمنٹ کو ریورس کرانا چاہتے ہیں۔ اگر منصور علی شاہ اور مندوخیل کو بھی اس میں ڈال دیا تو چار ججز ہیں۔‘
اعتزاز احسن نے کہا کہ ’اب سات کس طرح گنے جاسکتے ہیں کہ آپ اٹھ کر چلے گئے ہیں، اگر آپ اس کو اصول بنا لیں تو پھر پراکسی فیصلے ہوسکتے ہیں کہ ایک جج اٹھ کر چلا جائے اور کہے کہ میں بینچ چھوڑ کر آگیا ہوں لیکن میرا ووٹ جہاں تمہیں کمی لگے وہاں ڈال دینا‘۔
پروگرام کی میزبان عاصمہ شیرازی نے جب کہا کہ یہ پانامہ میں بھی ہوچکا ہے تو اس پر اعتزاز احسن نے کہا کہ ’پانامہ کیس میں ایسا ہرگز نہیں ہوا، پانامہ کیس کو مسخ کرکے پیش کیا جاتا ہے، اقامہ ہی تو جرم تھا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اگر لاء منسٹر اور اٹارنی جنرل وزیراعظم کو یہ باور کرا دیں کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ ماننے کی ضرورت نہیں، کیونکہ چار جج نے ہمارے حق میں فیصلہ دیا اور تین جج نے مخالفت میں، تو وہی ہوگا جو پچھلے سپریم کورٹ کا فیصلہ نہ ماننے والے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے ساتھ ہوا تھا، وہ نااہل بھی ہوئے اور پانچ سال کی سزا بھی ہوئی، ’یہ جائے گا شہباز شریف بھی اس طرح‘۔
انتخابات میں مزید کتنے دن آگے بڑھائے جاستے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں انہوںنے کہا کہ الیکشن کمیشن چار سے دس دن مزید لے سکتا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ عمران خان کے سر پر نااہلی کی تلوار لٹک رہی ہے۔
لیکن، انہوں نے کہا کہ عمران خان کو جس کیس میں چاہیں نااہل کردیں لیکن ٹیریان وائٹ کیس میں نہ کریں، کیونکہ آںے والے الیکشن میں لوگ اس کا فائدہ اٹھائیں گے، تیس فیصد امیدواروں پر فرضی کیسز کردیں گے، جس بچی کو نامزد کیا جائے گا اس کی جان کو خطرہ پیدا ہوجائے گا۔
ایک اور سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اگر پنجاب اور خیبرپختونخواہ میں خلا رہ گیا اور کوئی حکومت ہی نہ ہوئی تو پھر اس خلا کو پر کرنے کیلئے کوئی اور ہی آتا ہے۔ آئین اسی لئے اس کیلئے سخت تقاضہ کرتا ہے اور صاف لکھتا ہے کہ 90 دن سے زائد نہیں لگ سکتے۔
انہوں نے ”خلا“ کی مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ نگراں حکومت کی مدت کا تعین بھی واضح ہے، 111 دن بعد اعظم خان بھی عہدہ چھوڑ دیں گے کہ حکومت نہیں بنی، اب غاصب کے طور پر میں یہاں نہیں بیٹھ سکتا۔
پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے سابق سیکریٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد کا عدالتِ عظمیٰ فیصلے کے حوالے سے کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے زمینی حقائق کے مطابق فیصلہ نہیں کیا، انہوں نے عجلت اور جلد بازی میں فیصلہ کیا، یہ پاکستان کی الیکشن کی تاریخ کے علاوہ سپریم کورٹ آف پاکستان کی تاریخ کا بھی انوکھا واقعہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ صدرمملکت صرف قومی اسمبلی کے انتخابات کی تاریخ دے سکتے ہیں، 18ویں ترمیم کے بعد صوبائی انتخابات کے لیے صدر تاریخ کیسے دے سکتے ہیں، ایک صوبے میں گورنر اور ایک میں صدر کا تاریخ دینا آئین کے آرٹیکل 105 سے متصادم ہے۔
کنور دلشاد نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 105 کے تحت یہ گورنر کا اختیار تھا جو آپ نے اٹھا کر صدر کو دے دیا۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ معاشی حالات کو دیکھیں تو موجودہ حکومت کی کارکردگی کوئی قابل مثال یا قابل تقلید نہیں ہے، لوگوں میں اسی وجہ سے ان کیلئے شدید نفرت پائی جاتی ہے اور اسی نفرت کی وجہ سے عمران خان کا ووٹ بینک بڑھتا جارہا ہے۔