سپریم کورٹ کی جانب سے پنجاب اورخیبرپختونخوا اسمبلیوں کے انتخابات 90 روزمیں کرانے کے فیصلے کا خیرمقدم کرنے والی پاکستان تحریک انصاف نے فی الحال اس حوالے سے تک کوئی تاریخ طے نہیں کی، اس فیصلے پرپی ٹی آئی کی خوشی بھی کم وقت کیلئے ہوسکتی ہے۔
درحقیقت سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس پرسنائے جانے والے حکم میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کو طے شدہ 90 دن کی ڈیڈ لائن سے انحراف کرنے کی اجازت بھی دی ہے۔
فیصلے میں 2 ججز کے اختلافی نوٹ سے بھی تین ججوں کے ذریعہ جاری کردہ حکم کو دھچکا پہنچا ہے۔
پانچ رکنی بنچ نے 3-2 کے منقسم فیصلے میں صرف ایک حد متعین کی ہے جس سے آگے حکومت انتخابات میں تاخیر نہیں کرسکتی۔ 14 جنوری کو تحلیل کی جانے والی پنجاب اسمبلی کیلئے 90 دن میں انتخابات کی مدت 14 اپریل کو ختم ہو رہی ہے۔
کے پی اسمبلی کے لیے آپ 18 جنوری سے گنتی میں کچھ اور دن شامل کرسکتے ہیں. لہٰذا پی ٹی آئی کو فیصلے کے اس حصے میں کچھ تسلی مل سکتی ہے۔
لیکن سپریم کورٹ کے حکم کو احتیاط سے بیان کیا گیا ہے۔
سپریم کورٹ نے اپنے حکم میں الیکشن کمیشن کو ہدایت کی ہے کہ وہ صدرمملکت کو انتخابات کی تاریخ تجویزکرے جو الیکشن کمیشن کی مشاورت سے تاریخ کا اعلان کریں گے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ صدرکی جانب سے الیکش اعلان کردہ 11 اپریل کی تاریخ خودبخود لاگونہیں ہوتی بلکہ انہیں اس حوالے سے الیکشن کمیشن سے ممشاورت کی ضرورت ہے۔
عدالتی حکم نامے میں صدرعارف علوی کی جانب سے پنجاب میں انتخابات کی تاریخ کے حوالے سے 20 فروری 2023 کے حکم کو ’آئینی طور پرقابل عمل‘ قرار دیا گیا۔
اس حکم نامے کو “آئینی طورپرغیرقانونی قرار دیا گیا تھا کیونکہ اس کا اطلاق خیبرپختونخواہ اسمبلی پرہوتا ہے۔
عدالت نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ ایکٹ 2017 کی دفعات 57 اور 58 کو مدنظررکھتے ہوئے فوری طورپرصدر کو ایک ایسی تاریخ تجویزکرے جو مذکورہ ڈیڈ لائن پر پورا اترے۔
13 صفحات پر مشتمل مختصر حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ اگر ایسا کورس دستیاب نہیں تو الیکشن کمیشن انتخابات کے انعقاد کے لیے ایک تاریخ تجویزکرے گا جومذکورہ ڈیڈ لائن سے کم سے کم انحراف کرتی ہو۔ الیکشن کمیشن سے مشاورت کے بعد صدر مملکت پنجاب اسمبلی کے عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان کریں گے۔
دوسرے لفظوں میں عدالت نے کہا کہ ممکنہ حد تک زیادہ سے زیادہ 90 دن کے اندراندرانتخابات کرائے جائیں۔
سپریم کورٹ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ اانتخابات کی تاریخ کا اعلان الیکشن ایکٹ کی دفعہ 57 اور 58 کے پیش نظر کیا جانا چاہیے۔
سیکشن 57 میں کہا گیا ہے کہ صدر الیکشن کمیشن کی مشاورت سے انتخابات کی تاریخ کا اعلان کریں گے اور ہرانتخابی مرحلے کے درمیان درمیانی مدت کا اہتمام کریں گے۔ سیکشن 58 ’الیکشن پروگرام میں تبدیلی‘ سے متعلق ہے اور الیکشن کمیشن کو اجازت دیتا ہے کہ وہ صدر کو مطلع کرنے کے بعد انتخابی شیڈول تبدیل کرسکتا ہے۔
اس لیے عدالت کی جانب سے دفعہ 58 کا ذکر اہم ہے۔
جسٹس سید منصور علی شاہ اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے ایک ہی اختلافی نوٹ لکھا۔ وہ 5 رکنئی بینچ میں شامل دیگر 3 ججز یعنی چیف جسٹس عمرعطا بندیال، جسٹس منیب اختر اور جسٹس محمد علی مظہر سے متفق نہیں ۔
اختلاف کرنے والے دونوں ججز نے کہا کہ سپریم کورٹ کو اول تو اس کیس کی سماعت نہیں کرنی چاہیے تھی کیونکہ یہی معاملہ لاہور ہائی کورٹ اور پشاور ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے۔
ججز کے مطابق، ’معاملے کے حقائق اور حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے ازخود نوٹس کی کارروائی ( SMC No. 1 of 2023 ) آئین کے آرٹیکل 184 (3) کے تحت کیے جانے والےطریقہ کارمیں مکمل طور پرغیرمنصفانہ ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ کارروائی ”جلد بازی“ میں شروع کی گئی تھی۔
معزز جج نے اس بات پربحث کی کہ جو معاملہ پہلے ہی ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے اسے سپریم کورٹ میں کیوں نہیں اٹھایا جانا چاہئے اور پھر مزید کہا کہ، ”اس طرح کے معاملوں کو پارلیمنٹ کے ذریعہ حل کیا جانا چاہئے۔“
سب سے اہم بات یہ ہے کہ دونوں ججوں نے اپنے اختلافی نوٹ میں جسٹس یحییٰ آفریدی اورجسٹس اطہر من اللہ کے موقف کا بھی حوالہ دیا جوازخود نوٹس کی سماعت کیلئے تشکیل دیے جانے والے 9 رکنی بینچ کا حصہ تھے لیکن بعد ازاں انہوں نے خود کو اس سے الگ کرلیا۔
جسٹس سید منصورعلی شاہ اورجسٹس جمال خان مندوخیل نے لکھا کہ دونوں ججز نے درخواست خارج کردی تھی۔
اختلافی نوٹ میں اُن کا فٹ نوٹ درج ذیل ہے:
”ابتدائی طورپر9 رکنی بنچ نے اس معاملے کی سماعت کی۔ دو معززججوں (جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس اطہر من اللہ) نے مذکورہ درخواستوں کو مسترد کرتے ہوئے معاملے کا فیصلہ کیا۔ بعد میں 2 دیگرمعزز ججوں نے ذاتی وجوہات کی بنا پر خود کو بنچ سے الگ کر لیا اور چونکہ مذکورہ بالا دو ججوں نے اس معاملے کو خارج کر دیا تھا ، لہذا 27.02.2023 کے حکم کے ذریعہ 5 رکنی بنچ دوبارہ تشکیل دیا گیا تھا۔ مذکورہ بالا 2 معزز ججزکے 23.2.2023 کو کیے جانے والے فیصلے اس کیس کے ریکارڈ کا حصہ ہیں۔“
بعد ازاں حکومت نے سپریم کورٹ کا فیصلہ مسترد کرنے کے لئے اسی نوٹ کا استعمال کیا۔