ماہر قانون جسٹس شائق عثمانی کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن کو وسائل دستیاب ہوں گے تو ہی الیکشن کروائے گا ورنہ انتخابات نہیں ہوں گے۔
آج نیوز کے پروگرام ”فیصلہ آپ کا“ میں گفتگو کرتے ہوئے جسٹس شائق عثمانی نے کہا کہ آخر میں 5 بینچ نے کیس کو سن کر فیصلہ دیا، بقیہ چار ججز کا معاملہ کہاں سے آگیا یہ سمجھ سے بالاتر ہے، آئین میں صرف الیکشن تاریخ کا اعلان کرنے کا اختیار گورنر کو دیا گیا ہے اگر وہ خود اسمبلی تحلیل کریں۔
جسٹس شائق عثمانی نے کہا کہ سپریم کورٹ نے خود کہا کہ صدر مملکت سیکشن 57 کے تحت مشاورت کریں لیکن یہ بات صرف عام انتخابات میں ہوتا ہے، اگر صوبوں پر بھی صدر سے مشاورت ہو جائے تو کوئی مسئلہ نہیں، البتہ اب دیکھتے ہیں الیکشن کمیشن اس بات سے راضی ہوتا ہے یا نہیں، 90 روز میں انتخابات ہوتے ہیں یا نہیں وہ بھی الگ بات ہے۔
دونوں صوبوں میں انتخابات پر ماہر قانون کا کہنا تھا کہ 22 کروڑ کی آبادی کے ملک میں کسی کے کہنے سے الیکشن نہیں ہو سکتا، چیف الیکشن کمشنر سپریم کورٹ میں آکر کہہ سکتے ہیں کہ انتخابات نہیں ہوسکتے اور وہ ایسی کوشش بھی کریں گے، اس معاملے میں عدالت کو سکندر سلطان راجہ کو سننا بھی پڑے گا، بات وہی ہے کہ جب الیکشن کمیشن کو وسائل دستیاب ہوں گے تو ہی الیکشن کروائے گا ورنہ انتخابات نہیں ہوں گے۔
سپریم کورٹ کے فیصلے نے آئین کو سلجھانے کے بجائے مزید متنازعہ بنا دیا، ایڈوکیٹ جنرل اسلام آباد
ایڈوکیٹ جنرل اسلام آباد جہانگیر جدون نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ججز کے اختلافی نوٹس کو سمجھنے کی ضرورت ہے، انہوں نے انتخابات کرنے کے فیصلے پر اختلاف نہیں کیا، ججز کا اختلاف تھا کہ کیسز ہائی کورٹس میں زیر سماعت ہیں۔
جہانگیر جدون نے کہا کہ سپریم کورٹ کی جانب سے مختصر فیصلہ جاری کیا گیا ہے، ابھی دیکھنا ہوگا کہ ہائی کورٹس کیس پر کیا فیصلہ سناتی ہیں۔
ایڈوکیٹ جنرل اسلام آباد کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے نے آئین کو سلجھانے کے بجائے مزید متنازعہ بنا دیا ہے، اسے سے مسئلہ بڑھ گیا ہے، اب وفاقی کابینہ اور وزیراعظم کی صوابدید ہے کہ اس فیصلے کو لیکر سپریم کورٹ جاتے ہیں یا نہیں۔
چیف سیکرٹری اور آئی جی پنجاب کہہ چکے ہیں وہ الیکشن کیلئے تیار ہیں، ریاض فتیانہ
اس موقع پر رہنما پاکستان تحریک انصاف ریاض فتیانہ نے کہا کہ جب 5 پانچ رکنی بینچ نے ایک فیصلہ کردیا تو اس میں ابہام کی کوئی گنجائش نہیں، 14 جنوری کو پنجاب اسمبلی تحلیل ہوئی، کسی نے ادارے کو الیکشن کی تیاری سے نہیں روکا، کے پی اسمبلی گورنر نے توڑی تھی اسی لئے انہیں تاریخ کے اعلان کا اختیار دیا گیا تھا جب کہ پنجاب میں صورتحال مختلف ہے۔
ریاض فتیانہ نے کہا کہ الیکشن ایکٹ کے سیکشن 57 کے تحت صدر مملکت کو اختیار ہے کہ وہ انتخابات کی تاریخ میں مداخلت کر سکتے ہیں، عارف علوی نے الیکشن کمیشن کو مشاورت کے لئے بلایا لیکن ادارہ نہیں آیا۔
الیکشن کے لئے دونوں صوبوں میں سکیورٹی سے متعلق پی ٹی آئی رہنما کا کہنا تھا کہ ”لاہور میں موجود تھا جسٹس جواد صاحب کی کورٹ میں جب چیف سیکرٹری صاحب اور آئی جی پنجاب تشریف لیکر آئے، دونوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن یا کورٹ اگر فیصلہ کرتی ہے کہ الیکشن کا تو ہم تیار ہیں اور مکمل طور پر الیکشن کروائے کی پوزیشن میں ہیں، یہ پنجاب کی بیوروکریسی کے دو بگ باسز ہیں۔“
انہوں نے کہا کہ ایک فیصلہ آچکا ہے یا تو ملک کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان کے بجائے بنانا ری پبلک رکھ دیں، پھر جو چاہیں وہ کریں کیونکہ ملک میں ویسے ہی انتشار ہے۔
ریاض فتنہ نے کہا کہ سپریم کورٹ سب سے بالاتر ادارہ ہے، پانچ رکنی بینچ ایک فیصلہ کرچکی ہے، پانچوں ججز نے 90 روز میں الیکشن کرانے پر اتفاق کیا ہے، آئین کا آرٹیکل 224 بھی بہت واضح ہے جب کہ آرٹیکل 254 تمام اداروں کو عملدرآمد کرنے کے لئے پابند کر رہا ہے۔
آئین کی ایک شق 90 روز میں الیکشن جبکہ دوسری نگراں حکومت کا کہتی ہے، قمر زمان کائرہ
وزیراعظم کے معاون خصوصی اور رہنما پیپلز پارٹی قمر زمان کائرہ نے کہا کہ صدر مملکت کے پاس الیکشن کی تاریخ دینے کا کوئی اختیار نہیں، عارف علوی کو ایسی حرکت کرنے سے پہلے سوچنا چاہئے تھا، اگر آپ اپنے باسز کو خوش کرنے کی کوشش کریں گے تو ابہام پیدا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن خود کہہ رہا ہے کہ ہم نے انتخابات کرانے ہیں جس کے لئے انہین وسائل کی ضرورت ہے، ضروری اقدامات کئے بغیر انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں۔
دو ججز کے اختلافی نوٹس پر قمر زمان کائرہ نے کہا کہ دو ججز صاحبان اپنے آبزرویشن دے کر بنچ سے الگ ہوئے، سپریم کورٹ نے دونوں ججز کا نوٹ فیصلے کا حصہ بنایا۔
ہمارے وکلاء کہہ رہے ہیں، عدالت نے اس بات پر نوٹس لینا ہی تھا تو معاملے پر فل کورٹ تشکیل دیا جاتا، البتہ آئین کی ایک شق 90 روز میں الیکشن کا کہتی ہے جب کہ دوسری شق نگراں حکومت کا بھی کہتی ہے۔