بھارتی اپوزیشن جماعت کانگریس نے 85 ویں سالانہ اجلاس کے اشتہارسے کلیدی مسلم رہنما مولانا ابوالکلام آزاد کی تصویرہی ہٹا ڈالی، تنقید کے بعد کانفگریس کی جانب سے معافی مانگ لی گئی۔
مولاناابوالکلام آزاد نے جدوجہد آزادی اورکانگریس کی سیاست میں نہایت اہم کردار ادا کیا ہے، برطانوی حکومت کیخلاف آوازبلند کرنے پر 10 سال قید کاٹنے والے مولانا 2 بارکانگریس کے صدررہے، انہیں بھارت کا پہلا وزیرتعلیم ہونے کااعزازبھی حاصل تھا۔
اتوار26 فروری کو کانگریس کی جانب سے معروف اخبارات میں85ویں سالانہ اجلاس کا اشتہاردیا گیا جس میں مہاتما گاندھی، جواہرلعل نہرو، سردار ولبھ بھائی پٹیل، بی آرامبیڈکر،سبھاش چندربوس، سروجنی نائیڈو،لال بہادر شاستری، اندرا گاندھی، راجیو گاندھی اورپی وی نرسمہا راؤ سمیت 10 تصاویر شامل تھیں۔
مولانا آزاد کی تصویراخبارات میں کہیں دکھائی نہیں دی تاہم چھتیس گڑھ کے دارالحکومت رائے پور میں منعقدہ اجلاس میں ڈائس کے پیچھے انکی تصویرنمایاں نظرآئی، اس اجلاس میں ملک بھرسے تقریباً 15 ہزار اراکین نے شرکت کی۔
تصویر کی عدم موجودگی پر معافی کانگریس کے چند لیڈروں اوردیگرمسلم رہنماؤں کی جانب سے اعتراض کے بعد مانگی گئی۔
کانگریس کے سینیئررہنما جے رام رمیش نےاپنی ٹویٹ میں اسے ’ناقابل معافی بھول‘ قراردیتے ہوئےذمہ داروں کیخلاف کارروائی کا عندیہ دیا تھا۔
اس اقدام پرسوشل میڈیا صارفین کےعلاوہ بی جے پی رہنماؤں نے بھی کانگریس کی سیاست کو طنز کا نشانہ بنایا۔
بی جے پی کے آئی ٹی انچارج امت مالویہ کے مطابق ، ’یہ ایک ناقابل فہم غلطی کے سوا کچھ بھی ہے۔ یہ مولانا آزاد کی کانگریس کیلئےمسلم ووٹ حاصل کرنے کی کم ہوتی حیثیت کو ظاہرکرتا ہے۔ اس کے سوا اورکوئی وضاحت نہیں۔‘
جامعہ ملیہ اسلامیہ کے اکیڈمی آف انٹرنیشنل اسٹڈیز کے استاد پروفیسرمحمد سہراب نے برطانوی نشریاتی ادارے سے ٓبات کرتے ہوئے کہا کہ’یہ مسلمانوں کے لیے لمحۂ فکریہ ہونا چاہیے کہ کانگریس نے لگاتار اپنےعمل سے اس بات کو ثابت کیا، جس کا الزام آزادی سے قبل مسلمان کانگریس پر لگاتے رہے ہیں۔’
انھوں نے مولانا آزاد کی کانگریس میں حیثیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ یہ ’کانگریس کے شوبوائے سے نوبوائے‘ تک کا سفر ہے۔ (کانگریس کا صدرمنتخب ہونے پر محمد علی جناح نے انہیں کانگریس کے ’شو بوائے‘ کا خطاب دیا تھا)۔
کانگریس رہنما منیش تیواری نےلکھا کہ ’انڈین نیشنل کانگریس کے پاس مسلم رہنماؤں کا ایک یادگار سلسلہ ہے جنھوں نے خاص طور پر اپنی برادری کے اندر فرقہ وارانہ رجحانات کے خلاف جدوجہد کی ،کوئی تاریخ کے صفحات سے ان کی شراکت مٹانا چاہتا ہے۔
کچھ صارفین نے کانگریس سے ناطہ توڑ لینے والے سبھاش چندربوس کی تصویرشامل کیے جانے پربھی اعتراض کیا۔
ایک صارف نے کہا کہ نہرو خاندان کےعلاوہ پٹیل، شاستری، سروجنی نائیڈو اورنرسمہا راؤ کی تصاویر شامل کیے جانے کومعنی خیزقراردیتے ہوئے کہا کہ اس سے زیادہ معنی خیز اورافسوسناک ایک ایسی تصویر( مولانا ابوالکلام آزاد) کا نہ ہونا ہے، س کے بغیرکانگریس، کانگریس نہیں ہوسکتی۔’
مولانا ابوالکلام آزاد 11نومبر 1888 کوسعودی عرب کے شہرمکہ میں ایک ہندوستانی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ 1857 کی بغاوت کے بعد ان کا خاندان مکہ چلا گیا تھا۔ مولانا کے والد خیرالدین1898 کے دوران واپس لوٹے آئے اورکلکتہ میں سکونت اختیارکی۔
وہ دو قومی نظریے کے مخالف اور قومی یکجہتی کے حامی تھے جنہوں نے مسلم ليگ کی کھل کرمخالفت کی اور قومی اتحاد کو آزادی کا سب سے اہم ہتھیار قرار دیا تھا۔
بچن سے ہی بچوں کیلئے مضامین لکھنے والے مولانا نے 1912 میں ’الہلال‘ اوربعد ازاں ’البلاغ‘ کے نام سے بھی ایک رسالہ نکلا جس میں شائع مضامین پرانہیں 1916میں بنگال چھوڑنے کا حکم دیتے ہوئے رانچی میں نظر بند کر دیا گیا۔
کئی کتابوں کے مصنف مولانا نےقرآن مجید کی تفسیربھی لکھی ۔ ان کی کتاب ’غبار خاطر‘ خطوط کا مجموعہ ہے جسے اردو ادب کی بہترین تحریر قرار دیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ان کی ایک کتاب ’انڈیا ونز فریڈم‘ بھی قابل ذکر ہے جس کا کچھ حصہ ان کی وصیت کے مطابق کتاب کی اشاعت کے 30 سال بعد شائع ہوا۔
مولانا آزاد کا انتقال 22 فروی 1958 کو دہلی میں ہوا اور ان کی تدفین وہاں کی تاریخی جامع مسجد کی سیڑھیوں کے قریب کی گئی۔