وزیردفاع خواجہ آصف کاکہنا ہے کہ سپریم کورٹ مرض کا ایسا حل دے جو آب حیات ہو۔ شکایت کی جاتی ہے کہ سیاسی ورکرز عدلیہ پر تنقید کرتے ہیں تو اعلیٰ عدلیہ خود پوچھے کہ کچھ ججزپرتنقید اوردوسروں پر کیوں نہیں ہوتی۔ ہمارے دامن پر لگے داغ دنیا جانتی ہے لیکن ہمیں کوئی یہ نہ بتائے کہ ان کے دامن پر کوئی داغ نہیں۔
قومی اسمبلی میں اظہارخیال کرتے ہوئے وزیردفاع نے مریم نواز کی جانب سے ججز پرتنقید سے متعلق سیاسی مخالفین کے تبصروں کے جواب میں کہا کہ میں اپنی حدود و قیود کو عبور نہیں کرنا چاہتا، جنہوں نے نوازشریف کو غلط ناموں سے پکارا ان پر تنقید کی جاتی ہے۔ جب وہ ہماری حدود میں مداخلت کریں گے تو ہمارا بھی حق ہے کہ سوال کریں۔ انہوں نے کرسی کےتقاضے پورے نہیں کیے۔
خواجہ آصف نے کہا کہ جسٹس منیر صاحب پر تنقید ہوتی ہے، پاناما کیس کے ججز پر تنقید ہوتی ہے، جسٹس ارشاد احسن خان صاحب، جسٹس ریاض شیخ پر تنقید کی جاتی ہے لیکن سعید الزمان صدیقی اورناظم صدیقی پر تنقید نہیں ہوتی۔
وزیردفاع نے پنجاب اور خیبرپختونخواہ انتخابات میں تاخیرپرسپریم کورٹ کے ازخود نوٹس کیس میں 9 رکنی لارجر بینچ کے حوالے سے کہا کہ انصاف کا ترازو سپریم کورٹ کے پاس ہے، بینچ میں کچھ لوگوں کے کردار پربہت بڑا سوالیہ نشان لگ گیا ہےلیکن میں ان پر تنقید نہیں کرنا چاہتا۔ اگر پورا کورٹ بیٹھ جاتا ہے تو 8 ماہ میں جو کچھ ہوا کیا اسکا تدارک ہوسکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پچھلے 8 ماہ میں ہم نے دیکھا کہ ایک بندہ گاڑی میں بیٹھا ہے،اسے لاڈ پیارسے کہتے ہیں عدالت آجاؤ لیکن وہ نہیں آتا۔ لیکن ہم ایک بار نہ جائیں تو ضمانت منسوخ ہوجاتی ہے۔ ہم نے 6 ماہ سے 3،3 سال تک قید کاٹی۔ ہم ان چیزوں کا ازالہ نہیں چاہتے لیکن ملک آئین کے مطابق چلایا جائے۔
ارکان اسمبلی پر مراعات کے حوالے سے کی جانے والی تنقید پرخواجہ آصف نے کہا کہ عوام سمجھتی ہے کہ ایم این نہ جانے کتنے کروڑ لیتے ہیں،ہماری تنخواہ ایک لاکھ 68 ہزار روپے ہے، ہم کروڑوں نہیں لیتے، اپنے خرچے پر یہاں آتے ہیں۔ایسے ایم این ایز بھی ہیں جو پیدل چل کر ایوان آتے ہیں، لیکن کچھ یہاں ایسے ہیں جو سڑکوں پر آتے ہیں تو کرفیو لگ جاتے ہیں، انہیں بادشاہوں جیسا لائف اسٹائل ہے لیکن انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم اسی لیےاسمبلیوں میں واپس آتے ہیں کہ ہمارے سروں پر کسی نے ہاتھ نہیں رکھا ہوتا، ہم نے کسی ڈکٹیٹرشپ کو دوام نہیں بخشا ہوتا،کسی کیلئے فیصلے نہیں لکھے ہوتے۔
انہوں نے عدلیہ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے مزید کہا کہ سب سے پہلا آئینی حادثہ ایک جج نے کیا تھا جس نے نظریہ ضرورت کو درست قرار دیا تھا۔ سابق وزیراعظم ذوالفقار بھٹو کو پھانسی چڑھاکرسب سے پہلی سیاسی شہادت عدلیہ نے کی تھی۔ آج عدلیہ اپنی عزت کی ہمارے دامن پر لگے داغ دنیا جانتی ہے لیکن ہمیں کوئی یہ نہ بتائے کہ ان کے دامن پر کوئی داغ نہیں۔
خواجہ آصف نے ’جیل بھروتحریک ’ کو فلاپ قراردیتے ہوئے کہا کہ اب ’ ڈوب مرو‘ تحریم چلاؤ۔ بڑے بڑے ڈرامے باز وین کے آگے فوٹو کھنچواتے ہیں اور فرار ہوجاتے ہیں۔ گرفتاری دیتے ہی شاہ محمود نے ضمانت کی درخواست دے دی۔ یہ لیلیٰ کے مجنوں کہیں نظرآئے ہیں۔
چیئرمین پی ٹی آئی کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے وزیردفاع نے مزید کہا کہ پاکستان بنانے والے عمران خان کی طرح اسپانسرڈ لوگ نہیں تھے۔عمران خان نے اپنے تمام محسنوں کو گالی دی ہے، پہلے کہتا تھا اقتدار چھیننے میں امریکا کا ہاتھ ہےلیکن اب کہتا ہے کہ باجوہ نے کیا۔ وہ انہی ہاتھوں کو کاٹ رہا ہے جو اسے کھلاتے رہے۔ آرمی چیف کی تعیناتی کو بھی متنازع بنانے کی کوشش کی۔ یہ ان لوگوں کیلئے بھی سبق ہے جو ایسے افراد کو اسپانسر کرتے ہیں۔
عدلیہ سے ماضی میں ہونے والی غلطیاں ٹھیک کرنے کا مطالبہ کرنے والے خواجہ آصف نے مزید کہا کہ ملک اس بحران کا متحمل نہیں ہوسکتا،جن کرسیوں پر وہ (ججز )بیٹھے ہیں وہ پاکستان کےعوام نے دی ہیں،عدلیہ بحالی کیلئے ہم نے قربانی دی، آج عدلیہ اپنی عزت کیلئے خود بھی شہادت دے۔ماضی میں جو غلطیاں ہوئیں انہیں ٹھیک کرےآرٹیکل 63 اے کو دوبارہ نہ لکھیں، تاحیات نااہلی بنیادی حقوق کےخلاف ہے اور یہ سلسلہ جاری رہا تو وطن عزیز کے ساتھ کوئی حادثہ نہ ہوجائے۔
ملکی معاشی صورتحال کا تذکرہ کرتے ہوئے سینیئرلیگی رہنما نے کہا کہ ایک شخص(عمران خان ) آئی ایم ایف سے معاہدے کے بعد مکر جاتا ہے،پھر ایک معاشی بحران ہمیں ورثے میں ملتا ہے۔ ہمیں دکھ ہے کہ عوام پر بوجھ پڑ رہا ہے لیکن جو 4 سال حکمران رہے ہیں ان کا ملبہ صاف کرنے میں وقت لگے گا۔ اس ہاؤس میں فیض اور باجوہ بیٹھے تھے،ہمیں بتایا گیا کہ طالبان واپس آرہے ہیں اور پرامن رہیں گے۔ انہیں کوئی پوچھنے والا ہے کہ کیا ہوا۔ ایک دو لوگوں نے مل کر مک مکا کرلیا۔
انہوں نے کہا کہ ان حالات میں بھی کچھ لوگ دولت کا ایسا مظاہرہ کررہے ہیں جو بیہودگی ہے، یہ طبقہ اس ملک کے وسائل پر پلنے کیلئے پیدا ہوا ہے،مال روڈ پر گالف کورسز کی مثال دیتا ہوں، نورعالم اسلام آباد کلب کا آڈٹ نہیں کراسکا۔ یہاں یسے ادارے ہیں جو اربوں کھربوں کی جائیداد پر بیٹھے ہیں، لیکن یہ ایوان ان کا آڈٹ نہیں کراسکتا۔ انہوں نے ان کے گرد فائربالز پھینکی ہوئی ہیں جنہیں آپ عبور نہیں کرسکتے
خواجہ آصف نے آڈیو لیک کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ان لوگوں سے پوچھ رہا ہوں جنہیں پرویز الہی نے ماں کی گالی دی تھی، اب انہوں نے ساتھ کھڑے ہوکر انکو ابا بنالیا ہے۔