سپریم کورٹ کے پنجاب وخیبرپختونخوا الیکشن میں تاخیر پر ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے ہیں کہ انتہائی سنگین حالات ہوں تو انتخابات کا مزید وقت بڑھ سکتا ہے۔ جب کہ دو ججوں نے پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیوں کی تحلیل کی نوعیت پر سوالات اٹھائے جس سے امکان پیدا ہوگیا ہے کہ اسمبلیوں کو بحال بھی کیا جا سکتا ہے۔
پنجاب اور خیبرپختنوخوا انتخابات میں تاخیر پر ازخود نوٹس کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں 9 رکنی لارجر بینچ نے کی۔ اس دوران اٹارنی جنرل اوراسلام آباد ہائیکورٹ بارکےصدرشعیب شاہین سمیت سیاسی جماعتوں کےرہنماء بھی عدالت میں موجود تھے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس میں کہا کہ عدالت نے 3 معاملات کو سننا ہے، وقت کم ہے اور صدر نے الیکشن کی تاریخ کا اعلان کیا ہے۔
بیرسٹرعلی ظفرروسٹرم پر آئے اور کہا کہ ہم صدر سے متعلق چیزیں ریکارڈ پر لانا چاہتے ہیں۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ہم آٸین پرعملدرآمد چاہتے ہیں، آٸین کی خلاف وزری کسی صورت برداشت نہیں کریں گے۔ صدر نے سیکشن 57 کے تحت انتخابات کا اعلان کیا، دیکھنا ہے کہ اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد تاریخ دینے کا اختیار کس کا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہمارے سامنے ہائیکورٹ کا 10 فروری کا آرڈر تھا، ہمارے سامنے بہت سے فیکٹرز تھے، ہائیکورٹ میں لمبی کارروائی چل رہی ہے اور وقت گزر رہا ہے۔
جسٹس جمال خان مندو خیل نے کہا کہ از خود نوٹس پر تحفظات ہیں۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ازخود نوٹس بعد میں لیا پہلے اسپیکرز کی درخواستیں دائر ہوئیں۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ جسٹس مظاہرعلی اکبرنقوی بینچ میں تھے، جس میں چیف الیکشن کمشنر کو بلایا گیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ انتخابات کا ایشو وضاحت طلب ہے، ہم ارادہ رکھتے ہیں آپ سب کو سنیں، ہم نے آئندہ ہفتے کا شیڈول منسوخ کیا تاکہ یہ کیس چلایا جا سکے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ہمارے سامنے 2 اسمبلیوں کے اسپیکرز کی درخواستیں ہیں، کیس میں چیف الیکشن کمشنرکو بلایا گیا جو فریق نہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ انتہائی سنگین حالات ہوں توانتخابات کاوقت بڑھ سکتا ہے۔
بینچ میں موجود جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عدالت کے سامنے اگرچہ تین سوال ہیں جس میں ایک یہ بھی ہے کہ آیا صدر مملکت کے پاس انتخابات کی تاریخ دینے کا اختیار ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان کی نظر میں عدالت کو یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ آیا ان صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل آئین کے مطابق کی گئی ہے یا کسی سیاسی لیڈر کے کہنے پر توڑی گئی ہے۔
جسٹس منصورعلی شاہ نے بھی اسی قسم کی ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اگر سماعت کے دوران عدالت اس نتیجے پر پہنچی کہ صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل آئین کے مطابق نہیں ہوئی تو ان دونوں صوبائی اسمبلیوں کو بحال بھی کیا جا سکتا ہے۔
اٹارنی جنرل نے کیس کیلئے وقت دینے کی استدعا کرتے ہوئے مؤقف پیش کیا کہ اتنے لوگوں کو نوٹس جاری ہوگا تو کل تیاری مشکل ہو جائے گی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کل ہم صرف چند ضروری باتوں تک محدود رہیں گے، کیس کی تفصیلی سماعت پیر کو کریں گے۔ آرٹیکل 224 کہتا ہے 90 روز میں انتخابات ہوں گے، وقت جلدی سے گزررہا ہے، ہائیکورٹ میں معاملہ زیر التوا تھا، فیصلہ نہیں ہو پا رہا تھا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ بار کے صدر شعیب شاہین نے عدالت میں مؤقف پیش کیا کہ اگر فیصلہ انتخابات کرانے کا آتا ہے تو سب کو فائدہ ہوگا، یہ ٹائم باؤنڈ کیس ہے اس میں انتخابات کرانے کا ایشو ہے۔
جسٹس جمال جان مندوخیل نے ریمارکس میں کہا کہ کچھ آڈیو سامنے آئی ہیں، جن میں کچھ ججز پر بات کی جارہی ہے، میری رائے میں یہ کیس 184(3) کا نہیں بنتا۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ میرے خیال میں تمام سیاسی جماعتوں کو سننا چاہئے، جمہوریت میں سیاسی جماعتیں حکومت بناتی ہیں۔
عدالت نے پی ڈی ایم میں شامل تمام جماعتوں اور پاکستان بار کونسل کے واٸس چٸیرمین کو نوٹس جاری کردیے، عدالتی معاونت کیلئے اٹارنی جنرل آف پاکستان اور ایڈووکیٹ جنرلز کو بھی 27-A نوٹسز جاری کرتے ہوئے سماعت کل تک ملتوی کردی گئی۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 9 رکنی لارجر بینچ سماعت کررہا ہے، جو 3 سوالات کا جائزہ لے گا۔
لارجر بینچ میں جسٹس اعجازالاحسن ، جسٹس منیب اختر، جسٹس مظاہرعلی نقوی، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس یحییٰ خان آفریدی ، جسٹس منصورعلی شاہ، جسٹس اطہرمن اللہ اور جسٹس جمال خان مندوخیل شامل ہیں۔
گزشتہ روز سپریم کورٹ نے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں الیکشن نہ کرانے کے معاملے پر ازخود نوٹس لیا تھا۔
16 فروری کو سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے سابق سی سی پی او لاہور غلام محمود ڈوگر تبادلہ کیس کے تحریری فیصلے میں پنجاب میں عام انتخابات کا معاملہ ازخود نوٹس کے لئے چیف جسٹس کو بھجوایا تھا۔
فیصلے میں لکھا گیا تھا کہ انتخابات کا معاملہ براہ راست بینچ کے سامنے نہیں، چیف جسٹس مناسب سمجھیں تو نوٹس لے کر سماعت کے لئے بینچ تشکیل دیں۔
تحریری حکم نامے میں مزید کہا گیا تھا کہ عام انتخابات کا معاملہ سنجیدہ نوعیت اور بنیادی حقوق کے نفاذ کا ہے۔ آئین کا دفاع کرنا عدالت کا قانونی، آئینی اور اخلاقی فرض ہے، پنجاب میں عام انتخابات کا معاملہ ازخود نوٹس کے لئے بہترین کیس ہے۔
سپریم کورٹ کے اعلامیے کے مطابق چیف جسٹس کی سربراہی میں بننے والے 9 رکنی لارجر بینچ میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہرعلی اکبرنقوی، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس اطہر من اللہ شامل ہیں۔
سپریم کورٹ کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ پنجاب اور کے پی اسمبلیاں 14 اور 17 جنوری کو تحلیل ہوئیں، آرٹیکل 224 (2) کے تحت انتخابات اسمبلی کی تحلیل سے 90 روز میں ہونے چاہئیں۔
سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ آئین لازم قرار دیتا ہے کہ 90 روز میں انتخابات کرائے جائیں، انتخابات کی تاریخ کے لئے اسلام آباد ہائی کورٹ بار، خیبرپختونخوا اور پنجاب اسمبلی کے اسپیکرز کی درخواستیں بھی آئیں۔
واضح رہے کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد دونوں صوبوں میں نگران سیٹ اپ کام کر رہے ہیں تاہم گورنرز کی جانب سے تاحاک انتخابات کی تاریخ نہیں دی گئی۔
اس معاملے پر دو بار صدر مملکت نے مشاورت کے لئے الیکشن کمیشن کو خط کر ایوان صدر میں مشاورتی اجلاس میں شرکت کی دعوت تھی مگر الیکشن کمیشن نے مشاورت سے انکار کردیا تھا جس کے بعد صدر مملکت نے ازخود دونوں اسمبلیوں کے انتخابات کے لئے 9 اپریل کی تاریخ کا اعلان کیا۔