بارکھان میں صوبائی وزیرعبدالرحمان کھیتران پر تہرے قتل کے الزام کے معاملے میں پیش رفت سامنے آئی ہے، خان محمد مری کی اہلیہ گراں ناز، بیٹی اور4 بیٹوں کو بازیاب کرالیا گیا۔
گزشتہ روز مقتول قرار دی جانے والی گراں ناز، اور اس کے دونوں بیٹے بارکھان سے بازیاب کرالئے گئے ہیں۔
لیویز کے مطابق کوئیک رسپانس فورس نے تینوں افراد کو بازیاب کرالیا تھا، جب کہ دکی کے علاقے نانا صاحب میں ایک اور کارروائی کرتے ہوئے ایک شخص کو بازیاب کرایا گیا۔
لیویز نے بتایا کہ دو افراد کو ڈیرہ بگٹی میں کارروائی کے دوران بازیاب کرایا گیا۔ جب کہ تمام افراد کو سرکار کی حفاظی تحویل میں رکھا گیا ہے کہ اور امکان ہے کہ اہلخانہ کے تمام 6 افراد کو کوئٹہ منتقل کیا جائے گا۔
واضح رہے کہ گزشتہ دنوں خاتون گراں نازکی ایک ویڈیوسامنے آئی تھی جس میں وہ قرآن پاک اٹھا کرسردارکھیتران پرخود کو اوربچوں کو نجی جیل میں رکھنے کا الزام عائد کرتے ہوئے اپیل کررہی ہے کہ ان کی جان کو خطرہ ہے، انہیں بچایا جائے۔
بعد ازاں خان محمد مری کے دوبیٹوں اورایک خاتون کی لاشیں بلوچستان کےعلاقے بارکھان کے کنویں سے ملی تھیں جس کے بعد کہا گیا کہ مسخ شدہ چہرے والی لاش گراں نازکی ہے۔
بارکھان کنویں کی لاشیں، بااثر باپ بیٹے کا تنازعہ غریب کو نگل گیا
بارکھان میں کنویں سے 3 لاشیں ملنے کے بعد خاتون اوراس کے 2 بیٹوں کے قتل کا الزام سردار کھیتران پرعائد کیا گیا تھا۔
تاہم گزشتہ روز پوسٹ مارٹم کے بعد علم ہوا تھا کہ کنویں سے ملنے والی لاش 16 سے 17 سالہ لڑکی کی ہے جبکہ خان محمد مری کی اہلیہ کی عمر 40 سال سے زائد ہے ۔
بارکھان واقعے میں نیا موڑ، ’لاش گراں ناز کی نہیں‘
پوسٹ مارٹم میں مذکورہ لڑکی سے زیادتی کے شواہد بھی ملے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق تشدد کے بعد لڑکی کے سر پر 3 گولیاں ماری گئیں، پھر شناخت چھپانے کیلئے چہرے اور سرپرتیزاب ڈالا گیا۔
ڈاکٹرعائشہ فیض کا کہنا ہے لاش دو سے تین دن پرانی ہے، ڈی این اے سیمپل لے کر لاہور بھیج دیے گئے ہیں۔
کوئٹہ پولیس نے واقعے پر صوبائی وزیرعبدالرحمان کھیتران کوگرفتاربھی کر لیا ہے، ذرائع کے مطابق سردار عبدالرحمان کھیتران نے خود گرفتاری دی ہے ۔
دوسری جانب کوئٹہ میں اس واقعے کے خلاف مظاہرین نے کوئٹہ کے ریڈ زون کے قریب فیاض سنبل چوک پر رکھ کر دھرنا دے رکھا ہے۔
لواحقین اور مری قبیلے کے عمائدین کا مطالبہ ہے کہ صوبائی وزیر عبدالرحمان کھیتران کو گرفتاری کیا جائے، جب کہ ہائی کورٹ کے جج کی سربراہی میں سانحے کی تحقیقات کے لئے جے آئی ٹی تشکیل دی جائے۔
مقتولہ کے شوہر خان محمد مری کا دعویٰ ہے کہ 2019 میں سردار عبدالرحمان کھیتران کے آدمی ان کے گھر کے آٹھ افراد، جن میں اہلیہ گرا ناز، بیٹی فرزانہ، بیٹے عبدالستار، عبدالغفار، محمد عمران، محمد نواز، عبدالمجید اور عبدالقادر کو اغوا کرکے لے گئے۔ اور انہیں حاجی گوٹھ بارکھان کی نجی جیل میں قید کردیا، ان کے گھر کے مزید پانچ افراد اب بھی سردارعبدالرحمان کھیتران کی جیل میں قید ہیں۔
خان محمد مری کا الزام ہے کہ جب گھر کے افراد کو اغوا کیا گیا تو جاتے جاتے وہ لوگ گھر کا سارا سامان بھی ساتھ لے گئے۔ صوبائی وزیر اور ان کے اہلکار نجی جیل میں ان کے اہلِ خانہ سے ناصرف جبری مشقت کروا رہے ہیں، بلکہ ان پر جنسی و جسمانی تشدد بھی کیا جا رہا ہے۔
خان محمد کا کہنا ہے کہ وہ کئی برسوں سے سردار عبدالرحمان کھیتران کے ملازم ہیں، 2019 میں سردار عبدالرحمان کھیتران نے اپنے بیٹے انعام شاہ کے خلاف عدالت میں گواہی دینے اور قتل کرنے کاحکم دیا، لیکن میں نے انکار کردیا اور وہاں سے بھاگ نکلا۔ اس کے بعد سے صوبائی وزیر نے ان کی اہلیہ اور بچوں کو مکمل قیدی بنا رکھا ہے۔
دوسری جانب دوسری جانب صوبائی وزیرعبدالرحمان کھیتران نے الزامات کی تردید کرتےہوئےکہا تھا کہ اگر ان کی کوئی نجی جیل ہے تو تحقیقات کی جائیں، وہ کیوں مستعفی ہوں، معاملےپر تحقیقاتی کمیٹی بنائی جاتے تو وہ پیش ہو نےکےلئے تیار ہیں۔