لاہورمیں منعقدہ فیض فیسٹول میں شرکت کیلئے پاکستان آنے والے بھارتی نغمہ نگار، شاعراورمصنف جاوید اختر کا ایک ویڈیو کلپ سوشل میڈیا پر وائرل ہے جس میں وہ ممبئی حملوں کے حوالے سے تبصرہ کرتے ہوئے پاکستانیوں کو بُرا نہ ماننے کا مشورہ دے رہے ہیں۔
یہ ویڈیو کلپ گزشتہ ہفتے کے اختتام پران کی فیض فیسٹول میں شرکت کے دوران کی جانے والی گفتگو کا ایک حصہ ہے۔
ادبی تقریبات میں شرکت کیلئےاکثرپاکستان آنے والے جاوید اختر5 سال بعد اس تقریب میں شریک ہوئے تھے۔
پاکستان وبھارت میں وائرل اس کلپ میں جاوید اختر کا کہنا ہے کہ ، ’میں یہاں تکلف سےکام نہیں لوں گا، ہم نے نصرت فتح ، مہدی حسن کے بڑے بڑے فنکشن کیے، آپ کے ملک (پاکستان )میں تو لتا منگیشکرکا کوئی فکنشن نہیں ہوا۔ حقیقت یہ ہے کہ چلیے ہم ایک دوسرے کوالزام نہ دیں، اس سے حل نہ نکلے لیکن آجکل جواتنی گرم فضا ہے، وہ کم ہونی چاہیے‘۔
یہ بات انہوں نے پاک بھارت تعلقات کے تناظرمیں کہی تھی۔
جاوید اخترنے مزید کہا کہ، ’ہم ممبئی کے لوگ ہیں، ہم نے دیکھا کہ ہمارے شہرپرکیسےحملہ ہوا تھا۔ وہ لوگ ناروے سےنہیں آئے تھے نہ مصر سے آئے تھے۔ وہ لوگ ابھی بھی آپکے ملک میں گھوم رہے ہیں، تو یہ شکایت ہندوستانیوں کے دل میں ہوتو آپ کو بُرانہیں مانناچاہیے‘۔
جاوید اخترکا یہ بیان سوشل میڈیا پلٹ فارمز سے لے کرپاکستان اور بھارت کے ٹی وی چینلز تک کی زینت بنا، حسب معمول بھارت میں اس بیان کو ہاتھوں ہاتھ لیتے ہوئے اسے ’جاوید اخترکی پاکستان میں بیٹھ کرسرجیکل سٹرائیک‘ کہا گیا۔
جہاں بھارتی صارفین نے ایسے خیالات پرفکرکیا وہیں پاکستان میں اسے تنقید کا نشانہ بنایا گیا کہ ایک خالصتاً ادبی تقریب میں بیٹھ کر انہیں مخاصمت پر مبنی ایسا سیاسی بیان نہیں دینا چاہئے تھا۔
ایک صارف نے جاوید اخترکو ان کی اہلیہ شبانہ اعظمی کا بیان یاد کروایا جس میں کہہ رہی ہیں کہ مسلمان ہونے کی بناء پرانہیں ممبئی میں فلیٹ نہیں خریدنے دیا گیا۔
اداکارہ مشی خان نے ویڈیو پیغام میں جاوید اخترکے بیان کو افسوسناک قراردیتے ہوئے کہا کہ ان لوگوں پرحیرت ہے جو وہاں بیٹھے تالیاں بجارہے تھے۔
اداکاراعجاز اسلم نے اپنی ٹویٹ میں لکھا، ’جاوید اخترصاحب کیا آپ مسئلہ کشمیر پر کچھ روشنی ڈالیں گے؟ اگر آپ کو پاکستان سے اتنی نفرت ہے توآپ کو نہیں آنا چاہیے تھا‘۔
اداکار شان شاہد نے طنزاً لکھا، ’انہیں گجرات میں مسلمانوں کے قاتل کا توپتا ہے لیکن خاموش ہیں، اب یہ صاحب پاکستان میں 26/11 کے ملزمان کو ڈھونڈ رہے ہیں، انہیں ویزا کس نے دیا‘۔
صحافی اور وکیل خرم زبیرنے اپنے تگڑے جواب میں لکھا، ’جاوید اخترجوبرصغیر میں ادبی شخصیت کے طور پرجانے جاتے ہیں،نے فیض فیسٹیول میں پاکستان پردہشتگردوں کو پناہ دینے کا الزام عائد کیا لیکن یہ بھول گئے کہ کلبھوشن ناروے سے نہیں تھا اور نہ ہی پاکستان میں امن کو فروغ دے رہا تھا۔ بہتر ہوتا کہ وہ سیاست کے بجائے شاعری/ ادب کی بات کرتے‘۔
دوسری جانب بھارت میں پاکستان مخالف اورمتنازع بیانات کے باعث شہرت رکھنے والی اداکارہ کنگنگا رناوت نے اس بیان پرجاوید اختر کی تعریفوں کے پُل باندھتے ہوئے لکھا کہ ، ’جب میں جاویدصاحب کی شاعری سُنتی تولگتا تھا کہ ان پرماں ساوتری جی کی کرپا ہے، لیکن دیکھو“کچھ توسچائی ہوتی ہے انسان میں تبھی توخدائی ہوتی ہے ان کے ساتھ میں“ جے ہند جاوید صاحب ،گھر میں گھس کے مارا‘۔
دیگربھارتی صارفین کا ردعمل بھی کچھ ایسا ہی تھا۔
اسی نشست کے دوران خاتون نے جاوید اخترسے پوچھا کہ آپ کئی بارپاکستان آکردیکھ چکے ہیں کہ یہ ایک دوستانہ، مثبت سوچ اورمحبت والا ملک ہے لیکن بھارت میں ہم سے متعلق تصور اتنا اچھا نہیں ہے۔ میں جاننا چاہتی ہوں کہ جب آپ یہاں آتے ہیں تو کیا واپس جا کربتاتے ہیں کہ وہ بڑے اچھے لوگ ہیں، جگہ جگہ بم نہیں مارتے، ہمیں پھول بھی پہناتے ہیں اورپیاربھی کرتے ہیں، کیونکہ ہم چاہتے ہیں کہ خطے کے اچھے حالات ہوں اور ہم آپس میں محبت و دوستی کریں’۔
جواب میں جاوید اخترکا کہنا تھا کہ ، ’آپ جوکہہ رہی ہیں اس میں بہت سچائی ہے،دکھ کی بات ہے کہ لاہو اورامرتسر کے بیچ 30 کلومیٹرکا فاصلہ ہے اس کے باوجود ان شہروں اوردونوں ممالک کی عوام میں ایک دوسرے کے بارے میں لاعلمی ہےحیرت انگیزہے۔ یہ مت سوچیں کہ آپ ہندوستان کے بارے میں سب کچھ جانتے ہیں یا میں یہ نہیں کہوں گا کہ میں پاکستان کے بارے میں سب کچھ جانتا ہوں، یہ لاعلمی دونوں طرف ہے‘۔