Aaj Logo

اپ ڈیٹ 22 فروری 2023 06:50pm

جیل بھرو تحریک : پی ٹی آئی رہنماؤں نے گرفتاری دیدی، جیل منتقل

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی جیل بھرو تحریک کا آغاز لاہورمیں چیئرنگ کراس سے ہوچکا ہے۔ پی ٹی آئی کی جیل بھرو تحریک میں گرفتار کارکنوں کا قافلہ کیمپ جیل پہنچا، لیکن جیل کے دروازے نہ کھولے جانے پر قیدیوں کو کوٹ لکھپت جیل روانہ کردیا گیا۔

پی ٹی آئی کے نائب صدر شاہ محمود قریشی گرفتاری دینے کی کوشش میں زبردستی اسد عمر، اعظم سواتی، عمر سرفراز چیمہ اور دیگر کے ہمراہ قیدیوں کی گاڑی میں بیٹھ گئے، جنہیں کیمپ جیل منتقل کردیا گیا۔

اس موقع پر شاہ محمود قریشی نے آج نیوز سے خصوصی گفتگو میں کہا کہ مجھے کہا گیا آپ انڈر اریسٹ ہیں، آپ قیدیوں کی گاڑی میں بیٹھیں، پولیس نے مجھے گرفتار کرلیا ہے۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ میرا خیال تھا سی سی پی او آفس لے کر جائیں گے، لیکن سی سی پی او آفس گزر گیا ہے، پتہ نہیں کہاں لے جارہے ہیں۔

شاہ محمود قریشی نے قیدی وین سے جاری اپنے ویڈیو بیان میں کہا کہ کپتان کی کال پر وعدے کے مطابق پہلی گرفتاری دینا باعثِ فخر ہے، تحریک امپورٹڈ حکومت کی لاقانونیت کے خاتمے تک جاری رہے گی۔

پی ٹی آئی رہنماؤں کا کہنا تھا کہ ہم عمران خان کے حکم پر گرفتاری دینے آئے ہیں۔

پولیس نے پی ٹی آئی لاہور کے جنرل سیکرٹری زبیر نیازی کو بھی گرفتار کرلیا ہے۔ اس موقع پر وہاں موجود کارکنان کی جانب سے زبیر نیازی کو پھولوں کے ہار بھی پہنائے گئے۔

گرفتار رہنماؤں کو جیل منتقل کرنے کا فیصلہ

پولیس نے اب تک گرفتار رہنماؤں کو جیل منتقل کرنے کا فیصلہ کیا ہے، رہنماؤں میں پی ٹی آئی وائس چئیرمین شاہ محمود قریشی، اسد عمر، عمر سرفراز چیمہ، اعظم سواتی،زبیر نیازی اور عثمان اکرم شامل ہیں۔

پی ٹی آئی کے کچھ کارکنوں کو بھی جیل منتقل کیا جا رہا ہے۔

کارکنان اور پی ٹی آئی رہنماؤں سے بھری قیدی وینز چئیرنگ کراس سے روانہ ہوچکی ہیں اور کیمپ جیل کی جانب رواں دواں ہیں۔

جس کے بعد چئیرنگ کراس چوک کو ٹریفک کیلئے کھول دیا گیا ہے۔

پی ٹی آئی کارکنان نے قیدیوں کی گاڑی کو ریلی کا کنٹینر بنا لیا، کارکن گاڑی کے اگلے حصے اور چھت پر سوار ہوگئے، قیدیوں کی گاڑی پر پی ٹی آئی کے جھنڈے لگا دئے گئے۔

کارکنان کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر چئیرنگ کراس پر اینٹی رائیٹ فورس تعینات کردی گئی ہے، ہیلمٹ پہنے ڈنڈے بردار پولیس اہلکار موقع پر موجود ہیں۔

پولیس وین مال روڈ پہنچی تو کارکنوں نے لاٹھیاں برسا دیں، پی ٹی آئی کارکنوں نے پولیس وین کے شیشے توڑ دئیے۔

پولیس کی انوکھی حکمت عملی

پولیس نے کارکنوں کو قیدی وین میں بیٹھنے کی آفر کرتے ہوئے کہا ہے کہ جس نے گرفتاری دینی ہے گاڑی میں بیٹھ جائے۔

دفعہ 144 کی خلاف ورزی

پنجاب حکومت نے متعدد افراد کے خلاف قانونی کارروائی کا حکم دے دیا۔

ترجمان پنجاب حکومت کا کہنا ہے کہ پی ایس ایل کی وجہ سے دفعہ 144 نافذ کی گئی تھی، ٹیموں کی سیکیورٹی کیلئے مال روڈ پر خصوصی اقدامات کئے گئے تھے، لیکن ایک جماعت کے کارکنان نے دفعہ 144 کی خلاف ورزی کی۔

ترجمان کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعت کے کارکنوں نے مال روڈ پر مظاہرہ کیا اور زبردستی پولیس وین میں سوار ہوگئے۔

ترجمان حکومت پنجاب کا کہنا تھا کہ امن وامان کو ہر قیمت پر یقینی بنایا جائے گا۔

فواد چوہدری کا پیغام

جیل بھروتحریک کا آغاز ہونے پر فواد چوہدری نے اپنے خصوصی پیغام میں کہا کہ 500 سے 700 کے قریب کارکن خود کو گرفتاری کیلئے پیش کرچکے ہیں، پولیس ہزاروں لوگوں کو دیکھ کر پریشان ہوچکی ہے، سی سی پی او آفس اور چیئرنگ کراس پر بڑی تعداد میں کارکن موجود ہیں۔

فواد چوہدری نے کہا کہ قائدین اور کارکنوں کے جذبے پر شکر گزار ہوں، کل پشاور میں، پھر راولپنڈی، فیصل آباد میں گرفتاریاں دیں گے، گرفتاریوں کا سلسلہ آئین کی بحالی اور انتخابات کے انعقاد تک جاری رہے گا۔

جیل بھرو تحریک کیلئے شاہ محمود قریشی اور دیگر رہنماؤں کا 200 کارکنوں کے ساتھ گرفتاری دینے کا اعلان کیا گیا تھا۔

کارکنان کی بڑی تعداد اس وقت مال روڑ چیئرنگ کراس پر موجود ہے، پہلے مرحلے میں سابق وفاقی وزیز خارجہ شاہ محمود قریشی، سابق گورنرعمر سرفراز چیمہ ، سینیٹر ولید اقبال،سابق صوبائی وزیر ڈاکٹر مراد راس، سمیت دیگر رہنماوں کے ہمراہ 200 کارکنان گرفتاری دینی تھی۔

چیئرنگ کراس پر موجود کارکنوں نے اپنی گرفتاری سے قبل ہی خود کو جیل میں قید کرلیا، چیئرنگ کراس پرپی ٹی آئی کارکنوں کی جانب سے معاملے میں حقیقت کا رنگ بھرنے کیلئے جیل بھی تیار کی گئی ہے۔

مقدمات کن دفعات کے تحت درج کئے جاسکتے ہیں؟

حالانکہ پولیس بارہا کہہ چکی ہے کہ کسی کو اس کی مرضی یا بنا کسی مقدمے کے گرفتار نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے باوجود پی ٹی آئی قیادت مصر ہے کہ انہیں گرفتار کیا جائے۔

اس حوالے سے پولیس حکام کا کہنا ہے کہ اگر گرفتاری ہوئی بھی تو دفعہ 144 کی خلاف ورزی پر ہی ممکن ہوسکتی ہے۔

حکام کا کہنا ہے کہ سڑک بلاک کرنے کی صورت میں دفعہ 290 اور 291 کے تحت مقدمات درج ہو سکتے ہیں، جبکہ امن و امان خراب کرنے اور نعرے بازی پر 16 ایم پی او کے تحت مقدمہ درج ہوگا۔

کارکنوں کی گرفتاری کے بعد مثل اور ضمنیوں میں وجہ لکھنا لازم ہے، اس لیے جیل بھرو تحریک میں گرفتاریاں نئے مقدمات کے تحت کی جاسکیں گی۔

قافلے کی چئیرنگ کراس آمد

قبل ازیں، پی ٹی آئی رہنما شیریں مزاری، شاہ محمود قریشی اور شفقت محمود چیئرنگ کراس چوک پہنچے ہیں۔ جبکہ ڈاکٹر یاسمین راشد کی قیادت میں قافلہ چیئرنگ کراس کی جانب رواں دواں ہے۔

پی ٹی آئی کارکنوں کا ایک قافلہ چائنہ چوک پہنچا جن کے ہمراہ سابق صوبائی وزیرمراد راس، ولید اقبال اوردیگر موجود ہیں۔ کارکنان نے ہاتھوں میں پاکستان کے پرچم تھام رکھے ہیں ۔

رش کے باعث قافلہ سست روی سے اپنی منزل کی جانب گامزن ہے۔

پارٹی کا موقف ہے کہ اگر حکومت نے گرفتاریاں نہ کیں تو تحریک انصاف چیرنگ کراس پر ہی دھرنا دے گی۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ شاہ محمود قریشی کی گرفتاری کا امکان نہیں ہے۔ کیونکہ پی ٹی آئی قیادت نے انہیں فی الحال گرفتاری دینے سے روک دیا ہے۔

تاہم تازہ بیان میں شاہ محمود کا کہنا ہے کہ، ’من گھرٹ کیس میں کسی کی بھی گرفتاری مناسب نہیں، فیصلہ کیا ہے کہ خودگرفتاری دےکرمثال قائم کروں گا‘۔

پی ٹی آئی ذرائع کے مطابق پہلے مرحلے میں عمر سرفراز چیمہ، سینیٹر ولید اقبال، مراد راس کارکنوں کے ساتھ گرفتاریاں دیں گے۔

مزید پڑھیں: عمران خان کا بدھ سے جیل بھرو تحریک کا اعلان

گرفتاریاں دینے والوں کے اعزاز میں پارٹی آفس میں تقریب منعقد کی گئی، جس کے بعد گرفتاریاں دینے والے اراکین جیل روڑ سے ڈاکٹر یاسمین راشد کی قیادت میں چیئرنگ کراس کیلئے روانہ ہوئے۔

حکومتی حکمتِ عملی بھی تیار

دوسری جانب پی ٹی آئی کی جیل بھرو تحریک سے متعلق پنجاب حکومت نے بھی حکمت عملی طے کرلی۔ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو متحرک کردیا گیا۔

’پنجاب کی جیلوں میں جگہ ہی نہیں‘

جیل حکام کا کہنا ہے کہ پنجاب کی جیلوں میں پہلے ہی گنجائش سے زائد قیدی موجود ہیں، ممکنہ گرفتاریوں کی صورت میں مظاہرین کو پولیس اسٹیشنز اور ٹریننگ اسکولز منتقل کئے جانے کا امکان ہے۔

حکام کے مطابق پنجاب کی 43 جیلوں میں 40 ہزار قیدیوں کی گنجائش ہے، اس کے باوجود تمام جیلوں میں 55 ہزار قیدی موجود ہیں۔

لاہور کی دونوں جیلوں میں 4 ہزار قیدیوں کی گنجائش ہے، جیلوں میں گنجائش سے 50 فیصد زائد قیدی موجود ہیں۔

لاہور کی جیلوں میں گنجائش نہ ہونے پر گرفتار شدگان کو میانوالی اور ڈی جی خان منتقل کرنے کا امکان ہے۔

اس حوالے سے پنجاب حکومت کا کہنا ہے کہ گرفتاری دینے والے لوگوں کا مجرمانہ ریکارڈ چیک کیا جائے گا، گرفتار شدگان کے ٹیکس اور بینک ریکارڈ کی بھی جانچ کی جائے گی، بدعنوانی یا کریمینل کیس میں ملوث افراد کے خلاف فوری کارروائی کی جائے گی۔

مزید پڑھیں: تحریک انصاف کے رہنما اعجاز چوہدری نے ”جیل بھرو تحریک“ کا شیڈول جاری کردیا

اس سے قبل پی ٹی آئی کے نائب صدر کا کہنا تھا کہ اگرلاہور پولیس نے گرفتار نہ کیا تو پھرملتان سے گرفتاری دوں گا۔

زمان پارک لاہور میں حماد اظہر کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری نے بھی اس حوالے سے کہنا تھا کہ قیادت اورکارکن آج سے گرفتاریاں دینے کے لئے تیار ہیں، شاہ محمود قریشی آج ہی گرفتاری دیں گے، تحریک کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہے۔

اعجاز چوہدری کا کہنا تھا کہ کارکنوں کو کب تک جیل میں رکھنا ہے اس پر مشاورت سے فیصلہ کریں گے۔

انہوں نے مزید کہا کہ گزشتہ روز لاہورکےعوام نے جس طرح عمران خان کا استقبال کیا اس نے مخالفین کی نیندیں اڑادیں۔

حماد اظہرکا مزید کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرے ہم تیار ہیں، ہمارے امیدواروں نے قومی اسمبلی کی نشستوں پر ضمنی انتخابات کے لئے کاغذات نامزدگی جمع کرائے جبکہ اپنا نگراں سیٹ اپ ہونے کے باوجود مسلم لیگ ن کے کسی بھی امیدوار نے کاغذات جمع نہیں کرائے کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ عوام کیا حال کریں گے۔

یاد رہے کہ گزشتہ جمعرات کو سابق وزیراعظم عمران خان نے بدھ سے جیل بھرو تحریک شروع کرنے کا اعلان کیا تھا اور گذشتہ روز پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت کی جانب سے جیل بھرو تحریک کا شیڈول جاری کیا گیا تھا۔

جیل بھرو تحریک کا شیڈول

شیڈول کے مطابق 22 فروری بروز بدھ سے یکم مارچ تک روزانہ 200 کارکنان رضاکارانہ طور پر گرفتاریاں دیں گے۔ ان 200 کارکنان کے ہمراہ سابق اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کا چھ رکنی گروپ بھی گرفتاری دے گا۔

مزید پڑھیں: جیل بھرو تحریک: پی ٹی اۤئی نے گرفتاریوں کا طریقہ کار طے کرلیا

پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت کے مطابق گرفتاریاں نہ ہونے کی صورت میں کارکنان اور ارکان اسمبلی مقررہ مقام پر دھرنا دیں گے۔

22 فروری کو شاہراہِ قائد اعظم لاہور پر گرفتاریاں پیش کی جائیں گی، 23 فروری کو پشاور، 24 کو راولپنڈی، 25 فروری کو ملتان اور 26 فروری کو گوجرانوالہ کے کارکنان گرفتاریاں دیں گے۔

شیڈول کے مطابق 27 فروری کو سرگودھا، 28 فروری ساہیوال اور یکم مارچ کو فیصل آباد میں رضاکارانہ گرفتاری دی جائیں گی۔

22 فروری کو لاہور میں دی جانے والی رضا کارانہ گرفتاری کے لیے کارکنان کی فہرست تیار کرلی گئی ہے۔

مزید پڑھیں:’یہ آزادی کس کام کی ہے‘، پی ٹی آئی نے جیل بھرو تحریک کا ٹیزر ریلیز کردیا

لاہور میں سابق گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ، ارکان اسمبلی کے گروپ کے ہمراہ گرفتاری پیش کریں گے۔

پی ٹی آئی کے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ رضاکارانہ گرفتاری پیش کرنے والے ارکان قومی و صوبائی اسمبلی کے ناموں کی حتمی منظوری عمران خان دیں گے۔

جیل بھرو تحریک کیا ہے؟

جیل بھرو تحریک، 1947 میں خطہ برصغیر پاک و ہند پر برطانوی راج کے خلاف سیاست دانوں کے وسیع احتجاج کی ایک شکل تھی، جس کا مقصد سرکاری مشینری کا گلا گھونٹنا تھا۔ یا آسان الفاظ میں کہیں تو حکومتی کاموں میں خلل پیدا کرنا تھا۔

مزید پڑھیں: جیل بھرو تحریک کےلئے 12ہزار کارکنان نے رجسٹریشن کروالی،فواد چوہدری

جیل بھرو تحریک میں شامل ہزاروں سیاسی کارکنان پولیس یا دیگر سیکورٹی فورسز کے پاس پہنچتے ہیں اور خود کو گرفتاری کے لیے پیش کرتے ہیں، یا عملی طور پر کچھ ایسا کرتے ہیں کہ انہیں گرفتار کرلیا جائے، جیسے کہ حکومت کے خلاف توہین آمیز نعرے بازی وغیرہ۔

جیل بھرو احتجاج دو وجوہات کی بنا پر خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔

اوّل یہ کہ، پولیس آپ کو اس وقت تک حراست میں نہیں لے گی جب تک کہ آپ کسی جرم کا ارتکاب نہ کریں اور اگر آپ ایسا کرتے ہیں، تو سزا کا خطرہ ہے۔ جو آپ کے پیشہ ورانہ کیریئر کو داغدار کر سکتا ہے اور آپ کو پبلک سیکٹر کی تمام ملازمتوں کے لیے نااہل قرار دے سکتا ہے، بشرطیکہ آپ کی سزا کو کالعدم قرار دے دیا جائے۔

دوم، حکومت کسی بھی جگہ کو عارضی طور پر جیل یا سب جیل قرار دے کر قیدیوں کی ایک بڑی تعداد کو رکھنے کی صلاحیت پیدا کرسکتی ہے۔

پاکستان میں ”جیل بھرو“ کی تاریخ

پاکستان نے 75 سالوں میں صرف ایک جیل بھرو احتجاج دیکھا ہے۔

ضیاالحق کی حکومت کے خلاف ”تحریک بحالی جمہوریت“ (MRD) نے 1980 کی دہائی کے اوائل میں جیل بھرو تحریک کا اعلان کیا گیا۔

پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان ان سیاست دانوں میں شامل تھے، جنہیں فوجی حکومت نے جیل میں ڈالا تھا۔اس گرفتاری نے انہیں دوام بخشا اور وہ سیاسی منظر نامے پر اجاگر ہوئے۔ یہ گرفتاری ان کے سیاسی کیریئر کا پہلا بڑا سنگ میل ثابت ہوئی۔

Read Comments