وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے 17 فروری کو کراچی پولیس آفس (کے پی او) پر ہونے والے حملے پر پالیسی بیان جاری کیا ہے۔
انہوں نے سندھ اسمبلی کے فلور پر خطاب کرتے ہوئے اب تک ہونے والی تحقیقات کی کچھ تفصیلات بتائیں اور حملے کے بعد شہر میں نافذ سیکیورٹی پلان کے بارے میں بھی بتایا۔
کے پی او حملے کی سرکاری تفصیلات
- خودکش جیکٹس پہنے ہوئے تین دہشت گرد 1995 ماڈل کی کار میں پولیس کوارٹرزسے گزرے اور کمپاؤنڈ کی دیوار پھلانگ کر 17 فروری 2023 کی شام 7 بج کر10 منٹ پر کے پی او کی چار منزلہ میں داخل ہوئے۔
- دہشت گردوں نے خاردار تاریں کاٹیں تو کانسٹیبل عباس لغاری نے انہیں روکاجس پر وہ شہید کردئے گئے۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ سوال یہ ہے جب وہ(خاردار) تاریں کاٹ رہے تھے تو دوسرے پولیس والے اس وقت کہاں تھے۔
- دہشت گردوں نے اندھا دھند فائرنگ کی جس کا مقصد زیادہ سے زیادہ پولیسعملے کو یرغمال بنانا تھا۔
- رینجرز کے ایک بریگیڈیئر جو چھ سے سات رینجرز کے جوانوں کے ساتھ کہیں سےآرہے تھے، کے پی او پہنچے اور آپریشن میں حصہ لیا۔
- ڈی آئی جی ساؤتھ ، سی ٹی ڈی اور اسپیشل برانچ کے دیگر پولیس افسران(حالانکہ وہ علاقے میں تعینات نہیں تھے) موقع پر پہنچ گئے اور آپریشن کیمناسب قیادت کی۔
- ایڈیشنل آئی جی کراچی جاوید عالم اوڈھو اسلام آباد میں تھے لیکن وہ اپنےڈی آئی جیز اور آئی جی پولیس سے رابطے میں تھے۔
- پاک فوج کے اسنائپرز کو قریبی عمارتوں کی چھتوں پر تعینات کیا گیا اورنیوی کے رات میں دیکھنے والے ہیلی کاپٹر استعمال کرنے کا منصوبہ زیر بحثلایا گیا، تاہم اتنے میں پولیس اور رینجرز نے دو دہشت گردوں کو مارگرایا اور تیسرے نے تیسری منزل پر خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔
- حملے میں ملتان کے شجاع آباد سے تعلق رکھنے والے رینجرز کے ایس آئیتیمور شہزاد، شکارپور کے پولیس کانسٹیبل لطیف، لاڑکانہ کے ہیڈ کانسٹیبلغلام عباس، اورنگی ٹاؤن کے کانسٹیبل سعید اور فیصل آباد کے سینٹری ورکراجمل مسیح جاں بحق ہوئے۔ کُل اٹھارہ پولیس ، ایک رینجرز اہلکار اور ایکشہری حملے میں زخمی ہوا۔
- دہشت گردوں کا تعلق شمالی وزیرستان اور لکی مروت سے تھا اور وہ خودکشجیکٹس اور اسلحہ لے کر کراچی پہنچے تھے۔
- انہوں نے جو 1995 ماڈل کی کار استعمال کی، جو ایک ٹرانسفر لیٹر پر چلرہی تھی۔ حالانکہ اسے چوتھے مالک کو فروخت کر دیا گیا تھا، کسی نے اسےاس کے نام پر منتقل کرنے کی زحمت نہیں کی۔
- ٹی ٹی پی نے حملے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔ ایف آئی آر نمبر 20/2023درج کی گئی ہے۔
حکومتی فیصلے
سندھ حکومت کچھ تبدیلیاں کرنے جا رہی ہے۔
- ”اوپن لیٹر“ پر چلنے والی گاڑیوں کو ضبط کیا جائے گا۔ محکمہ ایکسائزقانون نافذ کرنے والے اداروں کے تعاون سے روڈ چیکنگ شروع کرے گا۔
- اگر یا جب کوئی حملہ یا واقعہ کسی سڑک یا اس کے قریب ہو رہا ہو تو گاڑیچلانے والوں کو رکنے کی ہدایت کی جائے گی۔ (جب کے پی او پر حملہ ہوا توشاہراہ فیصل بند تھا لیکن اس وقت بھی گاڑی والے اسے استعمال کرنے کیکوشش کر رہے تھے)
- جب کے پی او پر حملہ ہوا تو فلاحی تنظیمیں بالخصوص ایمبولینسز حملے کینوعیت پر غور کیے بغیر موقع پر پہنچ گئیں۔ نتیجتاً پہلے زخمی ہونے والوںمیں ایمبولینس کا عملہ شامل تھا۔
- میڈیا کے ساتھ بھی یہی ہوا، جس نے جائے وقوعہ سے رپورٹنگ شروع کر دی،جہاں سٹریٹ لائٹس سمیت تمام لائٹیں بند کر دی گئی تھیں اور براہ راستفائرنگ کی گئی۔ میڈیا نے قیاس آرائیاں شروع کر دیں۔
- فلاحی تنظیموں اور میڈیا کو ایسے واقعات کی کوریج کے لیے ایس او پیز دیےجائیں گے۔
- سادہ کپڑوں میں سیکیورٹی گارڈز کو گاڑیوں میں اسلحہ لے جانے کی اجازتنہیں ہوگی۔ نہ صرف گاڑیاں ضبط کی جائیں گی بلکہ گارڈز کو بھی گرفتار کیاجائے گا۔
- اسٹریٹجک اداروں کا سکیورٹی آڈٹ کرایا جائے گا۔