امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمان کا یہ وہ بیان ہے جو آج کل سوشل میڈیا پر تیزی سے وائرل ہورہاہے،، یوٹیوب کے ایک پوڈکاسٹ کے دوران میزبان شہزاد غیاث شیخ نے جب حافظ نعیم الرحمان سے جمعیت طلبا تنظیم کے لڑکے اور لڑکیوں کے ساتھ بیٹھنے کے رویوں کے حوالے سے پوچھا تو انہوں نے اس کی مخالفت کی اور کہا کہ یہ ہماری پالیسی کا حصہ نہیں ہے۔
کچھ روز قبل دی پاکستان ایکسپریس نامی یوٹیوب چینل پر ایک پوڈ کاسٹ شائع ہوا جس میں میزبان شہزاد غیاث شیخ نے امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمان کو مدعو کیا اور کراچی کے حوالے سے جماعت اسلامی کے وژن پر بات چیت کی گئی۔
دوران گفتگو میزبان نے حافظ نعیم الرحمان سے جمعیت طلبا تنظیم کے حوالے سے کچھ ایسے سوالات کیے جنہیں لوگوں نے تجربہ تو کیا ہے لیکن بولتے کبھی نہیں ہیں۔ میزبان نے جمعیت تنظیم کے اس رویے کی نشاندہی کی جس کے خوف میں جامعہ کا ہرطالب علم مبتلا رہتا ہے اور خوف کا عالم یہ ہوتا ہے کہ اگراس کے خلاف کچھ بولا جائے یا آواز اٹھائی جائے تو اس طالب علم کا جامع میں رہنا مشکل کردیا جاتا ہے۔
میزبان نے حافظ نعیم الرحمان سے پوچھا کہ یونیورسٹی میں موجود جمعیت طلبا تنظیم کیمپس میں ساتھ بیٹھے لڑکے اور لڑکیوں، چاہے وہ آپس میں بھائی بہن ہو یا میاں بیوی بنا پوچھے ڈنڈے برساتی ہے جس پر حافظ نعیم الرحمان کا کہنا تھا کہ پچھلے ایک سال میں پورے پاکستان سے کوئی بھی جمعیت کی ایسی شکایت ہوتو بتائیں ۔ حافظ صاحب نے کہا کہ اگر کسی تنظیم کے کارکن نے یہ کام کیا تو یہ نہ ہماری پالیسی ہے اور نہ ہی ہمارا طریقے کارہے۔کوئی بھی ایسا کام جو ہماری پالیسی کے خلاف ہوتا ہے ہم ایکشن لیتے ہیں۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ جامعات میں اس وقت 70سے 80 فیصد لڑکیاں زیرتعلیم ہیں جو لڑکوں کے ساتھ بیٹھتی ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ کوئی حق نہیں رکھتا کہ کسی کو زبردستی ساتھ بیٹھنے سے روکے اور اگر کوئی کر رہا ہے تو وہ غلط کررہا ہے، آپ اسلامی جمیعت کے ناظم کو اپنی شکایت بتائیں اور اگر وہ بھی نہ سنیں تو جماعت اسلامی آفس تک پہنچائیں۔
حافظ صاحب کے اس بیان کو بہت سے لوگوں نے آڑے ہاتھوں لیا اور اسے دوغلا بیان قرار دیا۔ لوگوں کا کہنا تھا کہ جامعات میں مووجود جمعیت تنظیم ساتھ بیٹھے لڑکے اور لڑکیوں کے ساتھ کیا کرتی ہے یہ سب کو معلوم ہے۔ ٹوئٹر پر صارفین بھی برس پڑے، ایک صارف نے لکھا کہ 2012 میں کراچی یونیورسٹی کی مرکزی لائبریری کے پاس میں حجاب میں تھی اور اپنے دوست کے ساتھ ہنس کر بات کررہی تھی کہ جمعیت کے کچھ کارکن آئے اور میرے دوست سے کہا کہ کیا وہ میرا بھائی ہے ، اس سے یویورسٹی کا کارڈ دکھانے کو کہا اور اصرار کرتے رہے جب تک کہ دوسرے دوست نے مداخلت نہ کی۔
اس حوالے سے بہت سے ٹوئٹرصارفین نے اپنے تلخ تجربات شیئرکیے۔
جامعات کے ساتھ ساتھ کالجز کا حال بھی مختلف نہیں ہے۔ حکومت چاہتی ہے کہ بچے سرکاری کالجوں میں حاضری یقینی بنائیں لیکن کیسے ہوسکتا ہے کہ ایک بچہ جو میٹرک کر کے کالج جائے اور وہاں موجود سیاسی تنظیموں کے رویوں اور بدمعاشیوں کو دیکھنے کے باوجود بھی روزانہ کالج آئے۔
میرا یہاں لکھنا جمعیت طلبا تنظیم کے خلاف نہیں بلکہ ان کارکنان کیخلاف ہے جنہوں نے اس تنظیم کی آڑ میں غلط کاموں کو ترجیح دی اور خوف پھیلایا۔جمعیت تنظیم کے قیام کو76 سال ہوگئے لیکن افسوس کہ طلبہ حقوق کی علمبردار تنظیم سے پہچانے جانے والی اسلامی جمعیت طلبہ تنظیم اب اپنے اس مشن سے ہٹ گئی ہے جس میں امن، دوستی، اتحاد کوفروغ دیا جاتا تھا اور معاشرے کی بہتر طریقے سے اصلاحت کی جاتی تھی۔