Aaj Logo

شائع 17 فروری 2023 03:21pm

مرنے سے پہلے کینسر کے مریض امریکی شخص نے آئرش لہجہ اختیار کرلیا

غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق ایک امریکی شخص پروسٹیٹ کینسر کی تشخیص کے بعد ’آئرش لہجے‘ میں بات کرنے لگا، لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ وہ شخص کبھی بھی آئرلینڈ نہیں گیا تھا۔

برٹش میڈیکل جرنل کی رپورٹ کے مطابق نارتھ کیرولائنا کا رہائشی غالباً فارن ایکسنٹ سنڈروم (FAS) کا شکار تھا، اس کی اس حالت کا آغاز اس کا علاج شروع ہونے کے 20 ماہ بعد شروع ہوا، اس بیماری نے اسے نیا لہجہ دیا اور اسے اپنے لہجے پر اختیار نہیں رہا تھا، جو اس کی موت تک برقرار رہا، جب کہ اس کا آئرلینڈ سے کوئی قریبی تعلق نہیں تھا۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ اس شخص نے پہلے کبھی غیر ملکی لہجے میں بات نہیں کی تھی، کیوں کہ یہ انگلینڈ میں رہتا تھا، اس شخص کا لہجہ بے قابو تھا اور دھیرے دھیرے مستقل ہوتا گیا، یہاں تک کہ اس کی حالت خراب ہوتی گئی پھر بھی یہ لہجہ نہیں بدلا جو ان کی موت تک برقرار رہا۔

رپورٹ کے مطابق اس شخص کی ’کیموتھراپی کے باوجود اس کا کینسر بڑھتا رہا اور جسم کے دوسرے حصوں میں پھیل گیا، اور ممکنہ طور پر پیرانیو پلاسٹک اسینڈنگ فالج کی وجہ سے ان کی موت واقع ہوگئی۔

محققین کا کہنا ہے کہ اس شخص کی آواز کی تبدیلی پیرانیو پلاسٹک نیورولوجیکل ڈس آرڈر (PND) نامی حالت کی وجہ سے ہوئی تھی، اور یہ اس وقت ہوتا ہے جب کینسر کے مریضوں کا مدافعتی نظام ان کے دماغ کے حصوں کے ساتھ ساتھ پٹھوں، اعصاب اور ریڑھ کی ہڈی پر حملہ کرتا ہے۔

رپورٹ میں یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ حالیہ برسوں میں عالمی سطح پر اسی طرح کے متعدد کیسز ریکارڈ ہوئے ہیں، اس مرض کے شکار دیگر افراد نے رپورٹر کو بتایا کہ جب بھی وہ بولتے ہیں تو انھیں ’گھر میں اجنبی‘ کے ہونے جیسا احساس ہوتا ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سب سے پہلا رپورٹ ہونا والا کیس 1941 میں سامنے آیا تھا جب ایک نوجوان نارویجن خاتون نے دوسری جنگ عظیم کے فضائی حملے کے دوران بم کا ٹکڑا لگنے کے بعد جرمن لہجہ اختیار کر لیا تھا۔ 2006 میں بھی برطانیہ کی خاتون لنڈا واکر کو فالج کا دورہ پڑا اور انہوں نے مقامی لہجے کی جگہ جمیکا کے لہجے والی آواز میں بات شروع کردی تھی۔

Read Comments