سپریم کورٹ نے سی سی پی اولاہورغلام محمود ڈوگرکے تبادلہ کا فیصلہ معطل کردیا۔عدالت نے کہاکہ بادی النظرمیں سی سی پی او کا تبادلہ کا حکم قانون کے برخلاف تھا کیسے چیف الیکشن کمشنر ایک فون کال پرزبانی ٹرانسفرکرسکتے ہیں ؟ قانون کے تحت انکے پاس یہ اختیارات ہی نہیں ہے۔
سپریم کورٹ میں سی سی پی اولاہورغلام محمود ڈوگرٹرانسفرکیس کی سماعت جسٹس اعجازالاحسن کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے کی۔ بینچ کے دیگر 2 ارکان میں جسٹس منیب اختر اور جسٹس مظاہرعلی اکبر نقوی شامل ہیں۔
جسٹس منیب اخترنے کہا کہ الیکشن کمیشن 26 جنوری کو تمام افسران کے تبادلے کا ازخود حکم کس بنیاد پردے سکتا؟ مسٹرایکس کو کہہ دیتے صبرکریں، کمیشن درخواست پر فیصلہ کرے گا ، گھڑی بہت تیز چل رہی ہے،ٹک، ٹک، ٹک،90 روز ختم ہونے کو ہیں اورالیکشن کمیشن مزید وقت مانگ رہا ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے پوچھا کہ چیف الیکشن کمشنر کہاں ہیں؟سیکرٹری الیکشن کمیشن نے بتایاکہ چیف الیکشن کمشنرکی طبیعت ناسازہے. پنجاب حکومت نے23جنوری کوغلام محمود ڈوگر کے تبادلے کی زبانی درخواست کی ،24جنوری کو تحریری درخواست آئی،6 فروری کو منظوری دی.
جسٹسس منیب اختر نے پوچھاکہ کیا عام حالات میں بھی زبانی درخواست پر احکامات جاری ہوتے ہیں؟سرکاری ادارے زبانی کام کرتے ہیں؟کیا آئینی ادارے زبانی احکامات جاری کرسکتے ہیں؟جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے زبانی درخواست آئی، منظوری ہوئی اورعمل بھی ہوگیا، عملدرآمد کے بعد خط وکتابت کی گئی۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ چیف الیکشن کمشنرنہیں تبادلوں کی منظوری الیکشن کمیشن دے سکتا ہے، کیا الیکشن کمیشن نے اپنے اختیارات چیف الیکشن کمشنر کو تقویض کیے ہیں؟ کمیشن کے ڈی جی لاء نے بتایاکہ اختیارات تقویض کرنے کی کوئی دستاویز موجود نہیں ہے،سپریم کورٹ نے 2013 میں فیصلے میں آبزرویشن دی تھی جس کی روشنی میں تبادلوں کا حکم دیا۔
جسٹس منیب اخترنے ریماکس دیے کہ عدالتی فیصلے کی روشنی میں تو قانون سازی بھی ہوچکی ہے، جوصرف وفاقی اورصوباٸی سیکرٹریزکے حوالے سے تھا۔ الیکشن کمیشن نے تواسسٹنٹ کمشنرز کے بھی تبادلوں کا حکم دے دیا، جسٹس مظاہر نقوی نے کہاکہ زبانی احکامات کی قانونی حیثیت سے بھی آگاہ کریں، سپریم کورٹ زبانی احکامات کے حوالے سے متعدد فیصلے جاری کرچکی ہے۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ نگران حکومت تو عام حالات میں تبادلے نہیں کرسکتی، چیف الیکشن کمشنر کو کس نے فون کرکے ٹرانسفر کی درخواست کی ؟ فون پر کون رابطے میں تھا؟ مسٹرایکس کو کہہ دیتے صبرکریں، کمیشن آپ کی درخواست پرفیصلہ کرے گا۔ چیف الیکشن کمشنر خود ہی پورا الیکشن کمیشن بن کرکیسے فیصلے کر رہے ہیں ؟۔
سیکریٹری الیکشن کمیشن بولے کہ اس حوالے سے چیف الیکشن کمشنرہی بتا سکتے ہیں، عدالت نے تقرری تبادلے کا ریکارڈ پیش کرنے کیلئے مزید وقت دینے اوراسلام آباد ہائیکورٹ بارایسوسی ایشن کی پنجاب میں انتخابات کی درخواست پر حکم جاری کرنے کی استدعا مسترد کردی۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ الیکشن کمیشن کاکام صرف شفاف انتخابات کرانا ہے اوراس کیلئے بھی وقت مانگ رہے ہیں، پنجاب میں انتخابات میں تاخیر کا معاملہ پہلے ہی چیف جسٹس کوبھیج چکے ہیں،ہمارے سامنے صرف سی سی پی اولاہورکی ٹرانسفرکا کیس ہے۔
عدالت نے سی سی پی اولاہورغلام محمود ڈوگر کی ٹرانسفرکا فیصلہ معطل کرتے ہوئے کہا کہ غلام محمود ڈوگر کے تبادلے کا حکم پہلے زبانی اورپھر تحریری دیا گیا، بادی النظرمیں حکم قانون کے برخلاف تھا۔
سپریم کورٹ نے چیف الیکشن کمیشن کو بھی آج دوبارہ طلب رکھا تھا۔ بینچ نےتحریری حکم نامہ میں پنجاب انتخابات کامعاملہ چیف جسٹس کوبھجوادیا تھا۔
سپریم کورٹ کی جانب سے انتحابات سے متعلق حکم واپس لیے جانے کے بعد آج کی سماعت سابق سی سی پی او کے تبادلے تک محدود رہی۔
گزشتہ روز کی سماعت میں سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن سے تمام اداروں میں ہونے والی خط وکتابت کی تفصیلات طلب کی تھیں، سپریم کورٹ نے ریمارکس دیے تھے کہ الیکشن کمیشن اپنے کام کے سوا باقی سارے کام کررہا ہے،90 دن میں انتخابات نہ ہوئے تو آئین کی خلاف ورزی ہوگی۔
گزشتہ روز جسٹس اعجازالاحسن اورجسٹس سید مظاہرعلی اکبر نقوی پرمشتمل2 رکنی بینچ نے سماعت کی تھی۔ عدالت کے طلب کرنے پرسماعت کے دوسرے حصے میں چیف الیکشن کمشن سپریم کورٹ میں پیش ہوئے تھے۔
سی سی پی او لاہور غلام محمود ڈوگر نے معطلی لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کر دی
پنجاب حکومت کے وکیل نے عدالت کوبتایاتھا کہ غلام محمود ڈوگر کا دوسری مرتبہ تبادلہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی اجازت سےکیا گیا جس پر ججز نے ریمارکس دیے تھے کہ افسران کی تبدیلی میں الیکشن کمیشن کا کیا کردارہے، یہ کردار انتخابات کا اعلان ہونے کے بعد ہوتا ہے۔