بھارت مقبوضہ کشمیر سے متعلق 1947 کے کاغذات کو منظر عام پر آنے سے روکنے کوشش کرسکتا ہے، کیونکہ اسے خدشہ ہے کہ یہ ”حساس“ خطوط غیر ملکی تعلقات کو متاثر کر سکتے ہیں۔
برطانوی اخبار ”دی گارجئین“ نے دعویٰ کیا کہ اس نے اس حوالے سے کچھ اندرونی دستاویزات دیکھے ہیں۔
گارجئین کے مطابق خیال کیا جاتا ہے کہ ”بوچر پیپرز“ کے نام سے موجود ان خطوط میں سیاسی اور فوجی دلائل شامل ہیں کہ بھارت کے پہلے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو نے پاکستان کے ساتھ جنگ بندی کا مطالبہ کیوں کیا اور کیوں ریاست جموں و کشمیر کو خصوصی حیثیت فراہم کی۔
ان بوچر پیپرز میں 1948 اور 1949 کے درمیان بھارتی فوج کے دوسرے کمانڈر اِن چیف کے طور پر خدمات انجام دینے والے جنرل سر فرانسس رابرٹ رائے بوچر اور جواہر لال نہرو سمیت سرکاری عہدیداروں کے درمیان بات چیت اور رابطوں کا حوالہ دیا گیا ہے۔
کئی دہائیوں تک ہمالیہ کے دامن میں واقع اس خطے کو خارجہ امور اور دفاع کے علاوہ تمام معاملات پر ایک الگ آئین، جھنڈا اور خود مختاری حاصل تھی۔
کشمیری ان اقدامات کو مسلم اکثریتی ریاست میں اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے انتہائی اہم سمجھتے تھے۔
لیکن 2019 میں ہندو قوم پرست وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت نے اس ”متنازع ریاست“ کی آئینی خودمختاری کو باضابطہ طور پر منسوخ کر دیا، تاکہ اسے مکمل طور پر بھارت میں ضم کرنے کی کوشش کی جا سکے۔
اس فیصلے نے جہاں خطے پر بھارتی حکومت کی گرفت مضبوط کی، وہیں مقبوضہ کشمیر کے عوام میں غصے اور ناراضگی کو جنم دیا، اور تین دہائیوں سے جاری مسلح بغاوت میں تیزی آئی۔
گزشتہ کئی برسوں میں سماجی اور سیاسی کارکنان کی جانب سے آرٹیکل 370 کے استدلال پر روشنی ڈالنے کے لیے ان کاغذات کو منظر عام پر لانے کی متعدد کوششیں کی گئیں، جن سے جموں و کشمیر کو اس کی خصوصی حیثیت ملی تھی۔
گارجئین کے مطابق، وزارت خارجہ کے ایک حالیہ ڈاکیومنٹ میں کہا گیا ہے کہ بوچر پیپیرز کے مندرجات کو ابھی ظاہر نہیں کیا جانا چاہیے۔
دستاویز میں کہا گیا ہے کہ ان کاغذات میں ”کشمیر میں فوجی آپریشنل اور حساس سیاسی معاملات پر سینئر حکومتی رہنماؤں کے درمیان خط و کتابت“ شامل ہیں۔
یہ کاغذات نہرو میموریل میوزیم اور لائبریری میں رکھے گئے ہیں، جو بھارت کی وزارت ثقافت کے تحت ایک خود مختار ادارہ ہے۔
اس معاملے سے واقف ایک ذریعے نے گارجئین کو بتایا کہ پیپرز میں انکشاف کیا گیا ہے کہ نہرو کشمیر میں فوجی ڈیویلپمنٹ، بشمول پاکستان کی جانب سے بھارت کیلئے حالات بگاڑنے کیلئے بیرونی فوجی مدد استعمال کرنے کی کوششوں سے سے باخبر اور آگاہ تھے۔
”رائے بوچر نے 13 ماہ کی فوجی تعیناتی کی وجہ سے بھارتی فوجیوں کو درپیش فوجی تھکاوٹ کے پیش نظر بڑھتی ہوئی صورتِ حال کو حل کرنے کے لیے سیاسی نقطہ نظر کی تجویز پیش کی، جس میں اس معاملے کو اقوام متحدہ کے سامنے لے جانا بھی شامل ہے“۔
گارجئین کا کہنا ہے کہ رائے بوچر کا یہ مشورہ نہرو کے کشمیر کو خصوصی درجہ دینے کا فیصلہ کرنے میں ایک محرک ہوسکتا ہے۔
1952 میں وزیراعظم جواہر لال نہرو نے پارلیمنٹ میں دلیل دی تھی کہ کشمیری عوام کی امنگوں کا احترام کیا جانا چاہیے۔
انہوں نے بھارتیی پارلیمان کو کہا، ”میں اس بات پر زور دینا چاہتا ہوں کہ کشمیر کے عوام ہی کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔“
”ہم خود کو چھری کی نوک پر ان پر مسلط نہیں کر سکتے۔“
بوچر پیپرز کو بھارت کی وزارت خارجہ نے 1970 میں نئی دہلی کے نہرو میوزیم اور لائبریری کے حوالے کیا تھا، جس میں ایک نوٹ کے ساتھ کہا گیا تھا کہ انہیں ”کلاسیفائیڈ“ رکھا جانا چاہیے۔
وزارت خارجہ کی دستاویز میں کہا گیا ہے کہ وہ تب سے لائبریری کے بند مجموعہ میں موجود ہیں۔
ایک ہندوستانی سماجی کارکن وینکٹیش نائک نے کاغذات کو ڈی کلاسیفائی کرنے کے لیے متعدد اپیلیں دائر کی ہیں، جنہیں ابتدائی طور پر مسترد کر دیا گیا تھا۔
تاہم، 2021 میں بھارتی انفارمیشن کمشنر نے یہ فیصلہ تو دیا کہ یہ ”قومی مفاد“ میں ہے، لیکن اہم دستاویزات کو افشاں کرنے کا حکم دینے میں ناکام رہے۔
حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ لائبریری تعلیمی تحقیق کے لیے کاغذات کو ڈی کلاسیفائی کرنے کے لیے وزارت خارجہ سے اجازت لے سکتی ہے۔
12 اکتوبر 2022 کے ایک خط میں میوزیم اور لائبریری کے سربراہ، نریپیندر مشرا نے بھارتی خارجہ سکریٹری کو لکھا کہ یہ مقالے ”علمی تحقیق کے لیے بہت اہم ہیں“ اور ان کی کلاسیفکیشن کی درخواست کی۔
مشرا نے خط میں دلیل دی کہ “ہم نے بوچر پیپرز کے مندرجات پڑھے ہیں۔ ہمارا نظریہ یہ ہے کہ کاغذات کو ماہرین تعلیم کی پہنچ سے باہر ’کلاسیفائیڈ‘ رہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم دیگر اہم عوامی شخصیات کے کاغذات بھی کھول رہے ہیں۔’
بھارت میں عام طور پر 25 سال کے بعد آرکائیول دستاویزات کی ڈی کلاسیفکیشن کی اجازت دیدی جاتی ہے۔
وزارت خارجہ نے اس خط کے جواب میں استدلال کیا کہ کاغذات کے افشاں کو فی الحال ”التوا“ میں رکھا جانا چاہئے اور مشورہ دیا کہ ”رائے بوچر پیپرز کی حساسیت اور ان کے افشاء کے ممکنہ مضمرات“ کا مزید جائزہ لیا جائے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت نے ابھی اس معاملے پر کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا ہے۔
دی گارجئین نے جواب کے لیے بھارتی وزارت خارجہ اور نہرو میموریل میوزیم اور لائبریری سے رابطہ کیا ہے۔