منی بجٹ آرڈیننس پر دستخط سے صدر کے انکار کے بعد فنانس بل آج قومی اسمبلی میں پیش کر دیا گیا۔ حکومت نے قومی اسمبلی اورسینیٹ سے بل منظور کروانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔
وفاقی وزیر برائے خزانہ و محصولات اسحاق ڈار نے قومی اسمبلی میں سپلیمنٹری فنانس بل پیش کیا، جس میں جنرل سیلز ٹیکس 17 فیصد سے بڑھا کر 18 فیصد کردیا گیا ہے، یعنی اب میں وہ تمام اشیا مہنگی ہونگی جن پر سیلز ٹیکس لگتا ہے۔
وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے ایوان کو بتایا کہ بل میں روزمرہ اشیاء پر اضافی ٹیکس عائد نہیں کیا، لیکن لگژری آئٹم پر جنرل سیلس ٹیکس (جی ایس ٹی) 25 فیصد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اس کے علاوہ سیگریٹ اور کولڈ ڈرنکس پر اضافی فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی بھی عائد کی گئی ہے لہٰذا ان کی قیمتوں میں اضافہ زیادہ ہوگا۔
بل میں موبائل فونز پر ٹیکس میں اضافے کی تجویز پیش کی گئی ہے، 500 ڈالر سے مہنگے موبائل فونز پر جی ایس ٹی کی شرح 17 سے بڑھا کر 25 فیصد مقرر کرنے کی تجویز شامل ہے۔
اور شادی ہالز، کمرشل لان، مارکی، کنسرٹس، ورک شاپس اور نمائشوں پر ایڈوانس ٹیکس عائد کردیا گیا ہے جو قابل ایڈجسٹ ہوگا۔
شادی کی تقریبات پر 10 فیصد ایڈوانس ٹیکس عائد کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔
اس کے علاوہ سیمنٹ پر 50 روپے فی کلو ٹیکس عائد کرنے کی تجویز بھی دی گئی ہے۔
اس کے علاوہ کمپنی کے شیئرز رکھنے پر مارکیٹ ویلیو پر 10 فیصد ایڈوانس ٹیکس عائد کرنے کی تجویز بھی فنانس بل میں شامل ہے۔
فضائی سفرپر بھی ایف ای ڈی کی شرح میں 20 فیصد اضافہ کردی گئی ہے۔ بین الاقوامی سفر کے لیے ائر ٹکٹ پر 50 ہزار روپے فی ٹکٹ اور مجموعی رقم کا 20 فیصد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی عائد کرنے کی تجویز ہے۔ دونوں میں سے جو رقم زیادہ ہوگی وہ وصول کی جائے گی۔
وزیر خزانہ کا کہنا ہے کہ ڈی اے پی کھاد کی قیمت میں نمایاں کمی کی گئی ہے۔
حکومت نے کئی پرتعیش اشیا پر بھی ڈیوٹی بڑھا دی ہے۔
حکومت نے وفاقی کابینہ سے گزشتہ روز منی بجٹ کی منظوری لی تھی۔ پاکستان بیل آؤٹ فنڈز کے اجراء کے لیے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ بات چیت کر رہا ہے۔
حکومت آئی ایم ایف کے ٹیکس وصولی کے اہداف سے نمٹنے کے لئے سخت اقدامات کرنے کا ارادہ رکھتی ہے اور اسی مقصد کیلئے 170 ارب روپے کے نئے ٹیکسز عائد کیے جائیں گے۔
فنانس ترمیمی بل 2023 کی منظوری پہلے قومی اسمبلی اور پھرسینیٹ سے لی جائے گی۔
اہم فیصلوں میں سیلز ٹیکس کی شرح17 سے بڑھا کر18 فیصد کی جارہی ہے، جس سے ٹیکسوں کی مد میں 50 ارب روپے حاصل ہوں گے۔ پرتعیش اشیاء پر ڈیوٹی کی شرح میں 25 فیصد تک اضافے کیا جارہا ہے، جس سے 60 سے70ارب روپے کی آمدن کی توقع کی جارہی ہے۔
حکومت کا ضمنی فنانس بل قومی اسمبلی، سینیٹ سے منظور کرانے کا فیصلہ
کولڈ ڈرنکس پر ایف ای ڈی 13 سے بڑھا کر 20فیصد کی جا رہی ہے جبکہ دیگر مشروبات پر 10 فیصد کا اضافہ کیا جا رہا ہے۔
آئی ایم ایف کی شرائط پر نئے ٹیکس کے نفاذ میں سگریٹ پرفیڈرل ایکسائزڈیوٹی کی شرح میں بھی 150فیصد تک اضافہ ہوگا۔
ٹیئرون میں شامل سگریٹ پرفیڈرل ایکسائزڈیوٹی 6500 روپےسےبڑھاکر16ہزار500 روپےفی ایک ہزارسگریٹ کردی گئی، ٹیئرٹومیں شامل سگریٹ 2050 روپے سے بڑھا کر5050 روپے فی ایک ہزارسگریٹ کردی گئی ہے۔
ایف بی آر نے سیلز ٹیکس اور ایف سی ڈی میں اضافے کی ہدایات تمام فیلڈ فارمیشنز کوجاری کردی ہیں۔
حکومت ڈیزل پر لیوی میں 10 روپے بڑھانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ ہوائی جہاز کے ٹکٹ بھی مہنگے ہو جائیں گے۔
صدرمملکت ڈاکٹرعارف علوی نے منی بجٹ آرڈیننس لانے کی حکومت کی درخواست مسترد کردی ہے کیونکہ وزیر اعظم شہباز شریف کی زیرقیادت کابینہ آئی ایم ایف کو قرض پروگرام کے تحت ایک ارب ڈالر سے زائد کی فنڈنگ کیلئے راضی کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
منگل کو ایوان صدر اسلام آباد میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار سے ملاقات کے دوران انہوں نے کہا کہ اس اہم موضوع پر پارلیمنٹ کو اعتماد میں لینا اور فوری طور پر اجلاس طلب کرنا زیادہ مناسب ہوگا تاکہ بل بلا تاخیرمنظور کیا جا سکے۔
عارف علوی کا جواب ایسے وقت میں سامنے آیا جب اسحاق ڈار نے یہ بتایا کہ حکومت آرڈیننس جاری کرکے ٹیکسوں کے ذریعے اضافی ریونیو حاصل کرنا چاہتی ہے
وزیر خزانہ نے صدر مملکت کو بین الاقوامی قرض دہندگان کے ساتھ مذاکرات میں پیش رفت اور ان تمام طریقوں سے آگاہ کیا جن پر اتفاق کیا گیا تھا۔
پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان ایک ہفتے تک جاری رہنے والے مذاکرات کے بعد پیر کو ورچوئل اجلاس میں قرض پروگرام کے نویں جائزے پربات چیت دوبارہ شروع ہوئی تھی۔ ورچوئل مذاکرات آج تیسرے روز بھی جاری رہیں گے۔
پاکستان آئی ایم ایف کو منی بجٹ سمیت تمام پیشگی اقدامات سے آگاہ کرے گا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ایف بی آر، ایس آر اوز سمیت پیشگی اقدامات کے دستاویزی ثبوت بھی آئی ایم ایف کو فراہم کیے جائیں گے۔ پیشگی اقدامات کے بعد باقاعدہ معاملات قسط منظوری کی طرف بڑھیں گے۔
تمام اقدامات مکمل ہونے پر آئی ایم ایف معاملات کوایگزیکٹو بورڈ اجلاس میں بھجوائے گا، اور آئی ایم ایف بورڈ قسط جاری کرنے کافیصلہ کرے گا۔
دریں اثنا وزیرخزانہ اسحاق ڈار کی سربراہی میں اقتصادی رابطہ کمیٹی نے قرض دہندہ کی شرائط کو پورا کرنے کے لیے متعدد فیصلے کیے ہیں۔ حکومت نے بجلی سرچارج کی منظوری دیتے ہوئے گیس کی قیمتوں کوبھی 16.6 فیصد سے بڑھا کر 124 فیصد کردیا ہے۔
اسحاق ڈارکا کہنا تھا کہ 500 سے 600 ارب روپے ٹیکس میں شامل کرنے کی قیاس آرائیاں غلط ہیں، ٹیکس کی اصل رقم 170 ارب روپے بنتی ہے۔ آئی ایم ایف وفد سے مذاکرات کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے اسحاق ڈار نے کہا تھا کہ یہ بات یقینی بنانے کی کوشش کریں گے کہ عام آدمی پر کوئی بوجھ نہ پڑے۔
دوسری جانب اقتصادی امور کے ماہرمہتاب حیدر نے ڈڈیفالٹ سے بچنے کے لیے پاکستان کے لیے فنڈنگ اہم قرار دے دی، انہوں نے آج نیوز کو بتایا کہ دفاع، ترقی، سرکاری پنشن اور سبسڈی وہ تین شعبے ہیں جہاں پاکستان معیشت کو ٹریک پر لانے کے لئے اپنے اخراجات میں کمی کر سکتا ہے۔
پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈیولپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی کے صدر احمد بلال محبوب نے بھی صدر کے معاملے کو پارلیمنٹ میں لے جانے کے مشورے سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ منی بجٹ قانون سازی کا اہم حصہ ہے جسے آرڈیننس کی شکل میں منظور کرنے کے بجائے پارلیمنٹ کے فلور پر بحث کے بعد منظور کیا جانا چاہئے۔
تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ ماضی میں اس طرح کی تشویش کو ذہن میں نہیں رکھا گیا تھا کیونکہ بہت سے معاملات پارلیمنٹ کی رضامندی کے بغیرصدر جمہوریہ نے آرڈیننس کے ذریعے جاری کیے تھے۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ وقت کے خلاف دوڑ ہے اور ہم ڈیفالٹ ہونے کے قریب ہیں، اگر ہم آئی ایم ایف کی جانب سے طے کردہ مذکورہ آرڈیننس سمیت ان ’شرائط‘ پر پورا نہیں اترتے تو پاکستان کے مفادات متاثر ہوں گے۔
احمد بلال محبوب کے مطابق آرڈیننس کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے ذریعے ہی منظور کیا جا سکتا ہے۔