امریکی ریاست اوہائیو کے دیہی علاقوں میں زہریلے مواد لے جانے والی مال بردار ٹرین کے پٹری سے اترنے کے نتیجے میں تباہ کن ماحولیاتی اثرات کا تعین 10روز بعد بھی جاری ہے۔ 3 فروری کو مشرقی فلسطین کے ایک چھوٹے سے قصبے میں تقریبا 50 ٹرین بوگیاں پٹری سے اتر گئی تھیں جن میں سے تقریباً 20 خطرناک مادہ لے جا رہی تھیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ اس علاقے میں اسی واقعے پر ایک فلم بنائی گئی تھی جس میں سب کچھ ایسے ہی ہوا تھا۔
واقعے میں کسی قسم کا جانی نقصان نہیں ہوا تھا تاہم زہریلے کیمیکل کے اخراج کے باعث اطراف کے رہائشیوں کو محفوظ مقامات پرمنتقل کیا گیا تھا جنہیں بعد ازاں واپس جانے کی اجازت دے دی گئی جسے تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے کیونکہ اب رہائشیوں کو خطرناک گیسوں کی تاحال موجودگی کے باعث شدید طبی مسائل کا سامنا ہے۔
حادثے کا شکارہونے والی بوگیوں میں ونائل کلورائڈ، بیوٹائل ایکرائلیٹ، ایتھائل ہیکسائل ایکرائلیٹ اور ایتھیلین گلائکول مونوبوٹیل ایتھرشامل تھے ۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق اخراج ہونے والے مادوں میں پہلی جنگ عظیم میں کیمیائی ہتھیار کے طور پر استعمال ہونے والی گیس فوسجین بھی شامل تھی۔
اس سے قبل خبریں سامنے آئی تھیں کہ ہوا کا معیار محفوظ ہے اور آس پاس کی آبادیوں میں پینے کے پانی کی فراہمی متاثرنہیں ہوئی ۔ لیکن 10 روز بعد پریشان کن رپورٹس سامنے آرہی ہیں، کئی رہائشیوں نے سر درد اور بیمارمحسوس کرنے کی شکایت کی ہے۔میلیسا ہنری نامی خاتون نے بتایا کہ وہ اپنے دو بیٹوں کو انخلا زون سے باہروالدین کے گھر لے گئی تھیں کیونکہ چھوٹے بیٹے کی آنکھیں انتہائی سرخ ہو گئی تھیں اور وہ بہت کھانس رہا تھا۔
پلاسٹک کے پائپ، تاروں اورپیکجنگ میں استعمال ہونے والا وینائل کلورائڈ جگر کے کینسر، ہیپاٹک انجیوسارکوما کی ایک نایاب شکل کے ساتھ جگر کے کینسر، دماغ اور پھیپھڑوں کے کینسر، لیمفوما اور لیوکیمیا کا باعث بن سکتا ہے۔
اوہائیو کے شہرنارتھ لیما کی ایک رہائشی نے بتایا کہ 10 میل دور ایک ٹرین کے پٹری سے اترنے کی وجہ سے لگنے والی کیمیائی آگ کے نتیجے میں ان کی مرغیاں ہلاک ہو گئیں۔ اس کے علاوہ ایک رجسٹرڈ لومڑی کیپرکا کہنا ہے کہ ان کی تمام لومڑیاں بیمارہوئیں اور ایک کی موت ہوگئی۔ مقامی ندی نالوں میں مردہ مچھلیاں بھی تیرتی دیکھی گئیں۔
امریکی ماحولیاتی تحفظ ایجنسی (ای پی اے) کی جانب سے ٹرین آپریٹر کو بھیجے گئے قانونی نوٹس میں آلودگی کی مزید تفصیلات بھی شامل ہیں۔
علاقے میں متعدد آبی گزرگاہوں سلفر رن، لیسلی رن، بل کریک، نارتھ فورک لٹل بیورکریک، لٹل بیور کریک اور دریائے اوہائیوسمیت سب سے لیے گئے پانی کے نمونوں میں بھی خطرناک مواد پایا گیا۔
ماحولیاتی کارکن ایرن بروکووچ نے لوگوں کو یہ بتانے پرکہ اب ان کا اپنے گھروں میں جانا محفوظ ہے، تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے ماحولیاتی آلودگی کے خطرے پر ریل آپریٹر کو بھی قانونی نوٹس بھیجا۔
ایرن نے اپنی ٹویٹ میں کہا کہ، ’یہی وجہ ہے کہ لوگ حکومت پر بھروسہ نہیں کرتے ہیں۔ آپ لوگوں کو یہ نہیں بتا سکتے کہ ماحول کو آلودہ کرنے والے خطرناک کیمیکلزاب بھی موجود ہیں‘۔
گزشتہ ہفتے ٹرین کمپنی نارفوک سدرن کیخلاف مقدمہ دائرکرتے ہوئے معاوضے کے مطالبے کے ساتھ کہا گیا تھا کہ کیا گیا تھا کہ کمپنی ٹرین دھماکے کے 30 میل کے دائرے میں رہائشیوں کی طبی جانچ اور متعلقہ دیکھ بھال کے لئے ادائیگی کرے۔
دوسری جانب اس ٹرین کے پٹڑی سے اترنے نے اوہائیو کے باشندوں کو ایک ایسی فلم کی یاد دلا دی ہے،جسے بنانے میں انہوں نے مدد کی تھی۔
یہاں کے رہائشی بین ریٹنر کے اہلخانہ نے 2021 میں فلم ”White Noise“ میں ایکسٹرا کے کردارادا کرنے کے لیےحامی بھری توان کا خیال تھا کہ یہ روزمرہ کے معمولات سے توجہ ہٹانے کیلئے اچھا رہے گا۔
فلم کے پلاٹ کے مطابق 37 سالہ ریٹنرکو ٹریفک جام کے منظرمیں دکھایا گیا جب ایک مال بردارٹرین کے ٹینکر ٹرک سے ٹکرانے کے بعد گاڑیوں کی قطاریں لگی ہیں اورلوگ وہاں نکلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایک اور منظرمیں لوگ شہر سے باہر جانے کے لئے اوور پاس پر چلتے ہیں۔ ڈائریکٹرز نے اس گروپ کو بتایا تھا کہ وہ ماحولیاتی تباہی سے بچنے کے لیے ”کمزور اور پسماندہ“ نظر آئیں۔
سال 2022 میں اوہائیو کے اطرف میں فلمائی گئی یہ ڈان ڈیلیلو کے ایک ناول پر مبنی ہے جو 1985 میں بھارتی شہر بھوپال میں کیمیائی تباہی کے فورا بعد شائع ہوئی تھی، جس میں تقریبا 4،000 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ یہ کتاب اور فلم گلیڈنی فیملی جو میاں بیوی اور 4 بچوں پرمبنی ہے جو زہریلے کیمیکلزسے بچ کرگھر واپسی پراپنی معمول کی زندگی دوبارہ شروع کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ریٹنرکے مطابق فلم کے پہلے ہاف میں سب کچھ ایسے ہی ہوا تھا، حکام نے گزشتہ ہفتے انہیں اپنا گھر خالی کرنے کا حکم دیا تھا، جب نارفوک سدرن ٹرین کی خطرناک مواد سے بھری 20 کاروں میں پٹڑی سے اترنے کے باعث آگ لگ گئی تھی، جس سے دھماکے کا خطرہ تھا۔
نیشنل ٹرانسپورٹیشن سیفٹی بورڈ اب بھی واقعے کی وجوہات کی تحقیقات کررہا ہے۔
ڈان ڈیلیلو کے کام کا مطالعہ کرنے والے اسکالرز کا کہنا ہے کہ وہ زندگی اور آرٹ کے ٹکراؤ سے حیران نہیں ہیں۔ سینٹ لوئس کی میری ویل یونیورسٹی میں انگریزی کے پروفیسر اور ڈان ڈیلیلو سوسائٹی کے صدر جیسی کاواڈلو کے مطابق ان کے کام کو اکثر پیش گوئی کے طور پر بیان کیا جاتا ہے۔