پاکستان میں جب بھی تھیٹرکی بات کی جائے تو ضیاء محی الدین کا نام سب کے لبوں پرہوتا ہے، جو انگریزی اور اردو دونوں زبانوں پراپنی مہارت اور عبور کی وجہ سے جانے جاتے تھے۔ پاکستان ٹیلی ویژن (پی ٹی وی) کے دنوں سے ان کی مقبولیت میں کوئی کمی نہیں آئی، ان کی صلاحیتوں کو سراہا اور ان سے سیکھا جاتا ہے۔
گفتگو پرکمال مہارت رکھنے والے ضیاء محی الدین کو ماہرین تعلیم اور کتابوں سے محبت کرنے والوں نے ہمیشہ پسند کیا، انہیں کسی شو کی میزبانی کرتے ہوئے دیکھنا بہت سے شائقین کے لئے تفریح طبع سے کہیں آگے کی چیز تھی جوآج بھی ان کے کام سے سیکھتے ہیں۔
بیس جون 1931کوفیصل آبادمیں پیدا ہونے والے ضیاء محی الدین نے 1949ء میں گورنمنٹ کالج لاہور سے گریجویشن کیا۔ انہوں نے اپنے کیریئر کے دوران پاکستانی سنیما اور ٹیلی ویژن کے ساتھ ساتھ برطانوی سنیما اور ٹیلی ویژن پربھی کام کیا۔
انہوں نے رائل اکیڈمی آف ڈراماٹک آرٹس (راڈا ) لندن سے اداکاری کی تربیت حاصل کررکھی تھی جو دنیا کے سب سے معتبر اداروں میں سے ایک ہے۔ انہوں نے 47 سال تک برطانیہ میں بطور اداکار کام کیا اور خود کو تھیٹر آرٹسٹس کی تربیت کے لیےوقف کرنے سے پہلے پی ٹی وی کے لیے پروگرامنگ بھی کی۔
وہ پاکستان ٹیلی ویژن پر اپنے ٹاک شو کے لیے بھی انتہائی مشہور تھے جس کا نام انہی کے نام پر ’ضیاء محی الدین شو‘ (1969 - 1973) رکھا گیا تھا ، اس پروگرام میں نہوں نے متعدد معروف شخصیات کے انٹرویوز کیے۔ وہ ہالی ووڈ کی فلموں لارنس آف عربیہ، بی ہولڈ اے پیل ہارس (1964)، آئی میکولیٹ کانسیپشن * (1992) اور بہت سی دیگر فلموں میں بھی نظر آئے۔
ضیاء محی الدین 1973 میں پی آئی اے آرٹس اکیڈمی کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے اور 1977 تک اس عہدے پر فائز رہے۔ جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کے بعد وہ برطانیہ واپس چلے گئے، پھر،90 کی دہائی میں مستقل طور پرپاکستان واپس آگئے۔
جنرل ضیاء الحق کی فوجی حکومت سے اختلافات کے بعد پاکستان چھوڑنے کے باوجود ان کی ملک سے محبت کبھی ختم نہیں ہوئی۔ 1980 کی دہائی میں برطانیہ میں کام کرنے والے ضیاء محی الدین سےایک انٹرویو میں پوچھا گیا کہ کیا وہ پاکستان کو یاد کرتے ہیں۔ انہوں نے اس سوال پرحیرت کا اظہارکرتے ہوئے جواب دیا کہ یقینا، کیونکہ یہ ان کا آبائی ملک تھا اورانہیں دیارغیرمیں اپنے دوستوں اور لوگوں کی یاد ستاتی تھی۔
جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ آرٹ کی کوئی زبان نہیں ، انہوں نے اردوشاعری اورنثرکو وہ انداز دیا کہ دنیا بھرمیں اپنی پہچان بنائی۔ ان کا انداز بیاں آرٹ کے دلدادہ افراد میں بہت مقبول ہے۔
ضیاء محی الدین نے آرٹس کونسل کے سامنے کراچی کے ہندوجم خانہ کی عمارت میں 2004 میں نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹ (NAPA )کی بنیاد رکھی اورزندگی کے آخری لمحات تک اس کے سربراہ رہے۔انہوں نے حال ہی میں رومیو اور جولیٹ پر ایک ڈرامے کی ہدایت کاری بھی کی تھی۔
ضیاءمحی الدین ”A carrot is a carrot“ نامی کتاب کے مصنف بھی ہیں جو سال 2012 میں شائع ہوئی۔
ناپا سے طویل عرصے سے وابستہ خالد احمد کے مطابق ان کی کتاب ’ آ کیرٹ ازآکیرٹ: میموریز اینڈ ریفلکشن’ 2012 ان لوگوں سے بھری ہے جنہوں نے ان کی زندگی کو بامعنی بنایا۔
کتاب کی رونمائی پرخالد احمد کاکہنا تھا ، ’ان کی کتاب پڑھ کر مجھے احساس ہوا کہ وہ کچھ اور نہیں بلکہ وہ ہیں جو بنانے کیلئے ان کے والد نے بڑی احتیاط سے ان کی پرورش کی تھی۔ ان کے والد کلاسیکی موسیقی سے محبت کرتے تھے اور باصلاحیت پیشہ ور افراد کی سرپرستی کرتے تھے۔ وہ انگریزی پڑھاتے تھے اور اسٹیج سے محبت کرتے تھے۔ اور اسی طرح ضیاء محی الدین آئے‘۔
ضیاء محی الدین کے نزدیک ڈراموں میں انسانی حالت کی عکاسی ضروری تھی چاہے وہ کسی بھی صنف کے ہوں۔
پیشہ ورانہ مہارت سے متعلق وہ ہمیشہ فکرمند رہتے تھے، جس کمی کو وہ رسمی تعلیم کے ذریعے تبدیل کرنا چاہتے تھے۔ لیکن اپنے نئے طالب علموں کے ذریعہ بولی جانے والی اور ٹیلی ویژن ڈراموں میں استعمال ہونے سے زبان سے بھی پریشان تھے۔
اداکارہ اور مصنفہ میرا سیٹھی نے 2019 میں شیکسپیئر کی فلم کنگ لیئر کے اردو ترجمہ کے لیے ان کے ساتھ کام کرنے کا اپنا تجربہ شیئر کرتے ہوئے کہا تھا کہ بہت سے لوگ اس شعبے میں کیے جانے کام کی تعداد کے باعث ضیاء صاحب کی تعظیم کرتے ہیں۔
ایکسپریس ٹریبیون کے ساتھ ایک انٹرویو میں ضیاء محی الدین نے اپنے کام کی اخلاقیات سے متعلق بات کرتے ہوئے بتایا تھا کہ وہ بہت زیادہ پروفیشنل ہیں، اوراپنے گھر والوں، اپنی بیگمات ، چاہے وہ کوئی بھی بیوی کیوں نہ ہوں (ضیاء محی الدین نے 3 شادیاں کی تھیں) کو اپنے کام کے قریب نہیں جانے دیتا، میں صرف اتنا کہتا ہوں، ’نہیں میڈم، براہ مہربانی ایک طرف ہوجائیں، یہ میرا کام ہے‘ ۔