وزیراعظم شہباز شریف نے لاہور میں باب پاکستان کا افتتاح اور روڈ کی توسیع اور کشادگی کے منصوبے کا سنگ بنیاد رکھ دیا ہے۔
فتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے شہباز شریف نے کہا کہ یہ تاریخی مقام مہاجرین کی عظیم قربانیوں کی یاد دلاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان مسلمانوں نے اپنے راستے میں خون کے دریا عبور کئے، قتل و غارت کا بازار گرم کیا گیا اس کی مثال نہیں ملتی ان قربانیوں کے بعد مملکت خداد وجود میں آئی ہے، والٹن کے مقام پر مقامی لوگوں نے انصار مدینہ کی یاد تازہ کی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس منصوبے میں 10 سے 15 سال نہیں بلکہ 20 سے 25 سال کی تاخیر ہوئی، امید ہے کہ اب اسے پوری ذمہ داری کے ساتھمکمل کیا جائے گا، نگران وزیر اعلیٰ پنجاب محسن نقوی سے گزارش ہے کہ منصوبے کیلئے بھرپور تعاون کریں۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ، ”دعا ہے کہ نیب کے عقوبت خانے میں کوئی نہ جائے کیونکہ وہاں گزشتہ ادوارمیں وہاں ناانصافی روا رکھی گئی اورانصاف کا قتل عام ہوا“۔
انہوں نے کہا کہ بیگناہ لوگوں کوچن چن کر نیب کےعقوبت خانے بھجوایا گیا لیکن منصوبے پراربوں روپے کاغبن ہوا تو کیا نیب نے انہین بلا کرپوچھا؟ دہرے معیار نے پاکستان کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا، منصوبے کا احتساب نہ ہونے کی وجوہات کی تفصیلات میں نہیں جاناچاہتا۔ جس کی لاٹھی اس کی بھینس والے نظام کو جب تک دفن نہیں کریں گے ملک ترقی نہیں کرے گا۔
وزیراعظم کے مطابق اشرافیہ سچے دل سے قربانی اور ایثار کا مظاہرے کرے گی تو کشتی کنارے پر لگے گی۔ شرط یہ ہے کہ ہمیں دن رات محنت کرنا ہوگی۔ایسے کئی منصوبے اربوں کھربوں کے غبن کے نیچے دفن ہوئے لیکن کوئی کارروائی نہیں ہوئی لیکن ہمت ہارنے کی کوئی بات نہیں کیونکہ مشکلات تو آتی ہیں اور آج بھی ہم مشکل دور سے گزر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا مزید کہا کہ آپ سوال کریں گے کہ آج بھی یہاں کھنڈرات ہیں شہبازشریف آپ کہاں تھے؟ تو جب میں 2008 میں آیا تو کنٹریکٹرز نے بتایا کہ 90 کروڑ کی سفید گرینائٹ اٹلی سے امپورٹ ہوگی بتایا گیاکہ یہ یادگار کے مینارپرلگے گا۔ کنسلٹنٹ نے کشمیری شال پہنی تھی، پاؤں میں کھسا تھا انہوں نے کہا کہ اٹلی کے ٹائلز لگائے بغیر قیام پاکستان کا تصور نہیں کیا جاسکتا میں نے کہا کہ پاکستان میں ادوایت کا مسئلہ ہے، تعلیم کا مسئلہ، 90 کروڑ لگا کر کیا ہم اپنی محرومیوں کی عکاسی کریں گے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے بتایا کہ میرے یہ کہنے پر کہ یہ ٹائلز نہیں آئیں گی اس نے جاکر شکایت کردی تو مجھے کہا گیا کہ یہی کنسلٹنٹ رہیں گے وہ کنسلٹنٹ ایک فراڈ تھا، اس کا کوئی تجربہ نہیں تھا، تکلیف کی بات ہے کہ 10 ویں دورے پر یہاں آیا اور کھنڈرات وہیں کے وہیں ہیں ، اس منصوبے کو بڑی بے رحمی سے موخر کیا گیا۔