Aaj Logo

شائع 10 فروری 2023 01:17pm

سپریم کورٹ نے عمران خان کے کنڈکٹ پر سوالات اٹھادیے

سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کے خلاف چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی درخواست پر سماعت کے دوران جسٹس منصور علی شاہ نے عمران خان اور پی ٹی آئی کے کنڈکٹ پر اہم سوال اٹھا دیے۔

دوران سماعت جسٹس منصور علی شاہ نے استسفار کیا کہ عمران خان اور ان کی پارٹی نے نیب ترمیمی بل پر ووٹنگ سے اجتناب کیا، کیا ووٹنگ سے اجتناب کرنے والے کا عدالت میں حق دعوی بنتا ہے؟ کیا کوئی رکن اسمبلی پارلیمان کو خالی چھوڑ سکتا ہے؟، کیا پارلیمان میں کرنے والا کام عدالتوں میں لانا پارلیمنٹ کو کمزور کرنا نہیں ہے؟۔

سپریم کورٹ کے جسٹس منصور علی شا ہ نے ریمارکس دیے کہ استعفی منظور نہ ہونے کا مطلب ہے کہ اسمبلی رکنیت برقرار ہے، رکن اسمبلی حلقے کی عوام کا نمائندہ اور ان کے اعتماد کا امین ہوتا ہے، کیا عوامی اعتماد کے امین کا پارلیمنٹ کا بائیکاٹ کرنے درست ہے؟ کیا قانون سازی کے وقت بائیکاٹ کرنا پھر عدالت آ جانا پارلیمانی جمہوریت کو کمزور کرنا نہیں؟۔

جسٹس منصور علی شاہ نے سوال اٹھایا کہ کیسے تعین ہوگا کہ نیب ترامیم عوامی مفاد اور اہمیت کا کیس ہے؟ عوامی مفاد کا تعین کیا عدالت میں بیٹھے 3 ججز نے کرنا ہے؟ کیا عوام نیب ترامیم کے خلاف چیخ و پکار کر رہی ہے؟، نیب ترامیم کونسے بنیادی حقوق سے متصادم ہے، اس کی نشاندہی نہیں کی گئی، عمران خان کے وکیل اسلامی دفعات اور آئین کے بنیادی ڈھانچے کا ذکر کرتے رہے۔

وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ عمران خان چاہتے تو نیب ترامیم کو اسمبلی میں شکست دے سکتے تھے، پی ٹی آئی کے تمام ارکان مشترکہ اجلاس میں آتے تو اکثریت میں ہوتے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس نقطے پر عمران خان سے جواب لیں گے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیا صرف اس بنیاد پر عوامی مفاد کا مقدمہ نہ سنیں کہ درخواست گزار کا کنڈکٹ درست نہیں تھا؟ ہر لیڈر اپنے اقدامات کو درست کہنے کے لئے آئین کا سہارا لیتا ہے، پارلیمان کا بائیکاٹ کرنا پی ٹی آئی کی سیاسی حکمت عملی تھی، ضروری نہیں سیاسی حکمت عملی کا کوئی قانونی جواز بھی ہو۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ بعض اوقات قانونی حکمت عملی بھی سیاسی لحاظ سے بے وقوفی لگتی ہے، پارلیمانی کارروئی کا بائیکاٹ دنیا بھر میں ہوتا ہے، برصغیر میں تو بائیکاٹ کی تاریخ لمبی ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے سوال اٹھایا کہ درخواست گزار نے نیب ترامیم عوامی مفاد اور بنیادی حقوق کی خلاف ورزی چیلنج کیں، عمران خان کے کنڈکٹ پر سوال تب اٹھتا اگر نیب ترامیم سے ان کو کوئی ذاتی فائدہ ہوتا، بظاہر درخواست گزار کا نیب ترامیم سے کوئی ذاتی مفاد منسلک نہیں لگتا۔

وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ ضروری نہیں ذاتی مفاد کے لئے نیب ترامیم چیلنج ہوں، درخواست گزار کو نیب ترامیم چیلنج کرنے سے سیاسی فائدہ بھی مل سکتا ہے، پی ٹی آئی نے استعفے نامنظور ہونے پر عدالت سے رجوع کیا، استعفے منظور ہونے پر بھی پی ٹی آئی عدالت میں آگئی، عمران خان نے دانستہ طور پر پارلیمنٹ خالی چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ شاید عمران خان کو معلوم تھا کہ وہ پارلیمنٹ میں کامیاب نہیں ہوسکتے توعدالت آ گئے، عمران خان سیاستدان ہونے کے ساتھ ساتھ عام شہری بھی ہیں۔

وفاقی حکومت کے وکیل نے کہا کہ کسی بھی مقدمے کی بنیاد حقائق پر ہوتی ہے قیاس آرائیوں پر نہیں، عدالت قانون سازی کو برقرار یا کالعدم قرار دینے کے بجائے واپس بھی کرسکتی ہے۔

جسٹس منصورعلی شاہ نے سوال کیا کہ اگرعدالت نیب قانون کالعدم قرار دے گی تو کل کیا کوئی بھی سپریم کورٹ میں قانون سازی چیلنج کردے گا؟ ایک شخص نے نیب ترامیم چیلنج کیں، ممکن ہے اسی جماعت کے باقی ممبران ترامیم کے حق میں ہوں۔

بعدازاں عدالت عظمیٰ میں کیس کی مزید سماعت 14 فروری کو ہوگی ۔

Read Comments