پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما شفقت محمود کا کہنا ہے کہ عدلیہ جمہوری نظام کا ستون ہے، جب ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ جمہوری نظام اور آئین و قانون کو خطرہ ہے تو ایک ہی چارہ ہے کہ آپ عدلیہ کے پاس جائیں اور کہیں کہ آئین و قانون کی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔
آج نیوز کے پروگرام ”فیصلہ آپ کا“ میں گفتگو کرتے ہوئے شفقت محمود نے کہا کہ اس حکومت نے سارے نظام کو داؤ پر لگا دیا ہے، چیف سیکریٹریز کہہ رہے ہیں الیکشن نہیں ہوسکتے، آئی جیز کہہ رہے ہیں کہ لاء اینڈ آرڈر بڑا خراب ہے، فنانس منسٹری کہہ رہی ہے کہ ہمارے پاس 12 ارب سے زیادہ نہیں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ ساری باتیں ایک جانب اشارہ کرتی ہیں ان کی الیکشن میں جانے کی کوئی خواہش نہیں۔
عدالت سے رجوع کے علاوہ دوسرے آپشن کے بارے میں سوال پر ان کا کہنا تھا کہ عدلیہ کے علاوہ ہم ایک سیاسی جماعت ہیں اور احتجاج کا آپشن ہمارے پاس ہے۔
صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کے الیکشن کمیشن کو لکھے گئے خط کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ صدر صاحب نے جو خط لکھا وہ بہت اہم ہے، انہوں نے انتہائی مشکل حالات کو دیکھتے ہوئے خط لکھا ہے۔ صدرنے خط لکھ کر اپنا آئینی حق ادا کیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ افغانستان میں جنگ عروج پر تھی لیکن پھر بھی انتخابات ہوئے، تاریخ بتاتی ہے کہ جہاں بحران ہوں سول وار ہو وہاں انتخابات ایک حل ہوتا ہے۔ انتخابات تو حالات کو بہتر بنانے کی طرف ایک قدم ہے۔
چیف جسٹس پاکستان کے ریمارکس پر بات کرتے ہوئے شفقت محمود کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس نے جو ریمارکس دئیے مجھے یقین ہے ان کی خواہش ہے کہ ملک میں بہتری ہو، ان کی خواہش ہے کہ بحرانی کیفیت نہ ہو، انہوں نےریمارکس ایک محب وطن پاکستانی کے طور پر دئے ہیں۔
وزیراعظم کے معاون خصوصی عرفان قادر سے جب چیف جسٹس کے ریمارکس کےبارے میں سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ اگر ان سے ایسے الفاظ منسوب کئے گئے ہیں تو میں سمجھتا ہوں کہ چیف جسٹس کو بہت محتاط رہنا چاہئیے۔
انہوں نے کہا کہ میرا خیال نہیں کہ وہ سیاست میں آنا چاہ رہے ہیں، لیکن ایسے سوال وہ نہ کریں کہ سیاست میں آتے نظر آئیں، اگر انہوں نے ایسا کیا ہے تو امید ہے وہ آئندہ اس طرح کے سوالات سے اجتناب کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ سیاسی بحران کو جو لوگ ختم کرنا چاہتے ہیں وہ الیکشن لڑ کر خود آئیں، یہ کام عدالتوں کے کرنے کا نہیں ہے۔
صدر علوی کی جانب سے لکھے گئے خط کے اختیار پر ان کا کہنا تھا کہ صدر پاکستان تو نگراں وزیراعلیٰ یا وزیراعظم بھی منتخب نہیں کرسکتے۔
پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے پاکستانی پیپلز پارٹی کے سابق رہنما اور سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر نے وزارت داخلہ اور فوج کے سیکیورٹی فرام کرنے سے معذرت پر کہا کہ منصفانہ انتخابات منعقد کرنا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے۔ لیکن فوج اور وزارت دفاع کا موقف بالکل ٹھیک ہے، فوج کے وہاں ہونے پر ادارے پر سوال اٹھتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ آئین کے مطابق تمام اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ الیکشن کمیشن کی مدد کریں۔
آئی ایم سے معاملات طے پاجانے کی خبر پر ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف سے پیسہ ملنا وینٹی لیٹر پر پڑے مریض کو عارضی سانس دینے کے مترادف ہے۔
کیا آئی ایم ایف کی شرائط سے اشرافیہ پر کوئی فرق پڑے گا؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا کہ اشرافیہ کی وجہ سے ہی ہم اس مقام پر پہنچیں ہیں، اشرافیہ کو بھی قربانیاں دینی پڑیں گی، جب ملک میں موجود مونوپولیز توڑیں گے تو اشرافیہ پر اثر پڑے گا۔
پاکستان کے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے معاملات طے پا جانے پر گفتگو کرتے ہوئے ماہر معاشیات ڈاکٹر فرخ سلیم کا کہنا تھا کہ جس چوراہے پر ہم نے پاکستان کی معیشت کو پہنشچا دیا ہے، اس کے نتیجے میں دو چوائسز ہیں اور دونوں چوائسز آسان نہیں۔ دونوں کے نتیجے میں 23 کروڑ عوام پر مہنگائی کا بوجھ پڑے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک چوائس یہ ہے کہ ہم آئی ایم ایف کا حصہ نہ بنیں، اگر ایسا کرتے ہیں تو ہم ڈیفالٹ کی طرف جائیں گے۔ اس کے نتیجے ہر اس چیز کی قلت ہوگی جو ہم امپورٹ کرتے ہیں۔ لیکن اگر ہم آئی ایم کی طرف جاتے ہیں تو ڈیفالٹ کا خطرہ مکمل طور پر ٹل جائے گا، لیکن مہنگائی کی شرح میں دس یا پندرہ فیصد اضافہ ہوسکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سب سے اہم اور اچھی خبر یہی آئی ہے کہ آئی ایم ایف نے وزارت خزانہ سے میمورنڈم آف اکنامک ایڈ فنانشل پالیسی (ایم ای ایف پی) کا ڈاکیومنٹ شئیر کرلیا۔ عموماً یہ شئیرنگ ان کے جانے سے 48 گھنٹے پہلے ہوتی ہے تاکہ جس ٹیم کو یہ دیا جارہا ہے ان کے پاس وقت ہو کہ وہ اسے دیکھ لیں۔
ان کا کہنا تھا کہ معاملہ اب یہ ہے پیسے کب ملیں گے۔
ڈاکٹر فرخ سلیم کہتے ہیں کہ ابھی ایم ای ایف پی شئیر کیا گیا ہے، اس کے بعد ایک مرحلہ اور آتا ہے جسے ہم اسٹاف لیول ایگریمنٹ (ایس ایل اے) کہتے ہیں، وہ ایگریمنٹ پھر واشنگٹن میں آئی ایم ایف کے بورڈ کے پاس جاتا ہے اور پھر بورڈ کی منظوری کے بعد ہمیں 1.1 ارب ڈالر ملیں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ آئی ایم سے گرین سگنل آجاتا ہے تو پھر چین، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب سے بھی تین سے چار بلین ڈالر ملنے کی توقع ہے اور جون کے آخر تک ہمارا حساب پورا ہوجائے گا۔