حکومت نے پنجاب، خیبرپختونخوا اسمبلیوں اور ضمنی انتخابات کےلئے فوج اور رینجرز اہلکار دینے سے معذرت کر لی۔
وزارت داخلہ نے الیکشن کمیشن کو جی ایچ کیو کے جواب سے آگاہ کرتے ہوئے خط میں پشاور بم دھماکے کا بھی تذکرہ کیا ہے۔
وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ حالیہ دہشت گردی واقعات کے بعد سیکیورٹی صورتحال ٹھیک نہیں، سیکیورٹی فورسز دہشت گردی سے نمٹنے میں مصروف ہیں، آپریشن کے باعث سیکیورٹی اداروں کو کہیں اور لگانے کی گنجائش نہیں۔
خط میں کہا گیا ہے کہ دہشت گرد گروپ نے سیاسی جماعتوں کو کھلے عام حملوں کی دھمکیاں دیں،انتخابی مہم کے دوران دہشت گردی کے واقعات رونما ہونے کا خدشہ ہے،فوج کے اہلکار مردم شماری کے لئے بھی سیکیورٹی فراہم کریں گے۔
خط کے متن کے مطابق صوبائی عام انتخابات اورقومی اسمبلی کے 64 حلقوں میں ضمنی الیکشن کے لئے فورسز کی فراہمی ممکن نہیں، صرف راجن پور ضمنی انتخاب کے لئے رینجرز بطور کوئیک رسپانس فورس دی جاسکتی ہے۔
خیال رہے کہ الیکشن کمیشن نے ضمنی اورصوبوں میں عام انتخابات کے لئے پاک فوج اوررینجرزکی تعیناتی کی درخواست کی تھی۔
دوسری جانب وزارت خزانہ نے الیکشن کمیشن کے خط کا جواب دیتے ہوئے معاشی صورت حال بہتر ہونے تک اضافی ضمنی گرانٹ کے مطالبے کو مؤخر کرنے کا مطالبہ کر دیا۔
الیکشن کمیشن نے انتخابی اخراجات کے لیے پہلے 52 ارب روپے کی درخواست کی تھی، جس کو بعد میں کم کر کے 47 ارب روپے کیا گیا، 5 ارب روپے جاری کیے جا چکے ہیں، الیکشن کمیشن کے لئے مزید 10 ارب روپے کے اجرا پر کام جاری ہے۔
وزارت خزانہ کے مطابق الیکشن کمیشن نے پنجاب،خیبر پختونخوا اور قومی اسمبلی کے ضمنی انتخاب کے 14 ارب روپے مزید مانگے ہیں اور مجموعی طور پر الیکشن کمیشن انتخابات کے انعقاد کے لیے 61 ارب روپے مانگ رہا ہے۔