عالمی بینک نے دنیا بھر میں غذائی افراط زر سے متاثرہ ممالک کی فہرست جاری کردی، ان ممالک میں پاکستان بھی شامل ہے، لیکن ہمارے ملک میں غذائی افراط زرترکی اور سری لنکا سمیت دیگر دوسرے ممالک کی طرح خراب نہیں ہے جو سب سے زیادہ متاثرہ 10 سرفہرست ممالک میں شامل ہیں۔
ورلڈ بینک کی جانب سے 31 جنوری کو جاری ہونے والی فوڈ سیکیورٹی اپ ڈیٹ کے مطابق پاکستان میں غذائی افراط زر کی شرح 30 فیصد سے کم ہے اور غذائی افراط زر کی حقیقی شرح 5 فیصد سے بھی کم ہے۔
فہرست میں دیے گئے افغانستان کے اعداد و شمارسے پتہ چلتا ہے کہ ملک میں غذائی افراط زر 5 فیصد سے 30 فیصد کے درمیان ہے جبکہ غذائی افراط زر کی حقیقی شرح 2 فیصد سے کم ہے۔
بھارت میں غذائی افراط زر 2 فیصد سے 5 فیصد کے درمیان اور حقیقی غذائی افراط زرصفر فیصد سے نیچے ریکارڈ کی گئی، یعنی اس کا کوئی وجود نہیں ہے۔ بنگلہ دیش میں غذائی افراط زر کی شرح تقریبا 8 فیصد ریکارڈ کی گئی جبکہ غذائی افراط زر کی حقیقی شرح کا کوئی وجود نہیں ہے۔
بھارت، روس، ایتھوپیا، جنوبی سوڈان اور ویتنام ان ممالک میں شامل ہیں جہاں غذائی افراط زر صفر سے نیچے ہے۔ یہ اعداد و شمار سرکاری کنزیومر پرائس انڈیکس (سی پی آئی) پر مبنی ہیں جیسا کہ ان ممالک میں حکومت کی طرف سے پیمائش کی جاتی ہے۔
عالمی بینک نے ستمبر سے دسمبر 2022 کے درمیان اعداد و شمار جمع کیے، اوردنیا کے بیشتر ممالک میں گزشتہ ایک سال کے دوران اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔
کینیڈا اورامریکہ میں غذائی افراط زرکی شرح 10 فیصد اور غذائی افراط زر کی شرح 4 فیصد ہے۔
غذائی افراط زرسے متاثر ہونے والے ٹاپ 10 ممالک کی فہرست سے پتہ چلتا ہے کہ زمبابوے 285 فیصد افراط زر کے ساتھ سرفہرست ہے۔ ترکی میں بھی لوگ 77 فیصد افراط زر کے ساتھ خوفناک صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں۔
زمبابوے 285 فیصدوینزویلا 158فیصدلبنان میں 143 فیصدارجنٹائن 95 فیصدترکیہ 77 فیصدگھانا 60 فیصدسری لنکا 59 فیصدروانڈا 59 فیصدہیٹی 53 فیصد
عالمی بینک کی رپورٹ کے مطانق سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک افریقہ، شمالی امریکہ، لاطینی امریکہ، جنوبی ایشیا، یورپ اور وسطی ایشیا میں ہیں۔
اقوام متحدہ کے نظام اور بچوں میں غذائی قلت سے متعلق اقوام متحدہ کے گلوبل ایکشن پلان نے ایک مشترکہ پریس ریلیز میں ان 15 ممالک میں سب سے زیادہ کمزور بچوں کے تحفظ کے لیے فوری اقدامات کا مطالبہ کیا ہے جو خوراک کے بحران سے سب سے زیادہ متاثر ہیں۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ان ممالک میں 3 کروڑ سے زائد بچے غذائی قلت کا شکار ہیں جن میں سے 80 لاکھ بچے شدید غذائی قلت کا شکار ہیں۔
تنازعات، موسمیاتی تبدیلیاں، عالمی وبا کرونا اور زندگی گزارنے کے لیے بڑھتے ہوئے اخراجات شدید غذائی قلت کے شکار بچوں کی تعداد میں اضافہ کر رہے ہیں کیونکہ ان کی صحت، غذائیت اور دیگر زندگی بچانے والی خدمات تک رسائی میں کمی واقع ہو رہی ہے۔
عالمی بینک کا کہنا ہے کہ یوکرین پر روس کے حملے نے فوڈ سیکیورٹی کی صورتحال کو بدترین بنا دیا ہے۔