مہمند میں ہزاروں افراد نے دہشت گردی، بدامنی، نفرت اور عدم تحفظ کی حالیہ لہر کے خلاف احتجاج کے لیے ایک مظاہرہ کیا، جس میں منظور پشتین، سینیٹر مشتاق احمد خان اور سردار حسین بابک سمیت دیگر نے شرکت کی۔
ڈسٹرکٹ مہمند، پاکستان کے شمال مشرقی صوبے خیبرپختونخوا کے ضلع پشاور میں واقع ہے اور اتوار کو یہاں ہونے والا یہ مظاہرہ یکے بعد دیگرے کئے جانے والے احتجاج کی ایک کڑی ہے۔
ہفتے کو پشاور میں اسی طرح کا ایک احتجاجی مظاہرہ کیا گیا تھا۔
مظاہرے کا اہتمام نوجوانوں کی ایک مقامی تنظیم، سوات اولسی پاسون نے کیا تھا۔
اگرچہ، اس طرح کے مظاہروں کا آغاز گزشتہ سال افغانستان کی سرحد سے منسلک صوبے میں مشتبہ افراد کی آمد کے بعد ہوا تھا۔ لیکن، پشاور کے ایک انتہائی قلعہ بند علاقے پولیس لائن کی مسجد میں خودکش بمبار کے 102 جانیں لینے اور 200 سے زائد افراد کے زخمی ہونے کے بعد لوگ بڑی تعداد میں عسکریت پسندی کی مذمت کے لیے باہر نکل آئے ہیں۔
یہ ایک ایسا حملہ تھا جس نے 31 جنوری کو 255ویں کور کمانڈرز کانفرنس میں چیف آف آرمی سٹاف کو یہ کہنے پر مجبور کیا کہ ”کسی بھی دہشت گرد تنظیم کے لیے زیرو ٹالرنس“ ہو گی۔
اس افسوس ناک واقعے کی قومی اسمبلی کے فلور پر بھی مذمت کی گئی، جہاں وزیر دفاع خواجہ آصف نے سوال کیا کہ طالبان کو دوبارہ منظم ہونے کی اجازت کیسے دی گئی۔
پشاور کی طرح پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے منظور پشتین کا بھی مہمند پہنچنے پر شاندار استقبال کیا گیا۔
انہوں نے عوام سے خطاب میں کہا کہ ”یہ ایک شخص کا مسئلہ نہیں ہے۔ بہت سے بچے، بوڑھے، خواتین، ملکان (کاروباری افراد) اور سپاہی اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔ ہر سیاسی جماعت نے اپنے کارکنوں کو کھویا ہے۔“
انہوں نے نفرت کے خاتمے کی ضرورت اور پشتونوں کے درمیان اتحاد پر زور دیا۔
منظور پشتین نے صوبے میں سہولیات کی کمی پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے مزید کہا کہ وہ قومی وسائل پر حق چاہتے ہیں۔
اس موقع پر جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان کا کہنا تھا کہ خیبرپختونخوا کے عوام امن اور معاش چاہتے ہیں۔
انہوں نے تجویز دی کہ دہشت گردی کو روکنے کے لیے سرحد پر باڑ لگائی جائے۔
عوامی نیشنل پارٹی کے خان زمان کاکڑ کا کہنا تھا کہ قوم جاگ چکی ہے۔ ”اب ہم جنازے نہیں اٹھائیں گے۔“
عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی جنرل سیکرٹری سردار حسین بابک نے اس بڑے اجتماع میں مہمند کے نوجوانوں کی تعریف کی اور کہا کہ “ قوم کے بچوں کو اس خطے میں امن اور وسائل پر اختیار کی ضرورت ہے۔ ہم اس خطے کو اپنا سمجھتے ہیں اور ماں کی طرح اس کی قدر کرتے ہیں۔ ہم اس کے دعویدار ہیں۔“
عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) نے دہشت گردانہ حملوں میں بہت نقصان اٹھایا ہے۔ جب ملک دہشت گردی سے نبردآزما تھا تو اس کی متعدد اعلیٰ ترین قیادت اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھی۔
سردار حسین بابک نے کہا کہ ”اے این پی نے قوم سے کوئی شکایت نہیں کی۔ ہم پشتون روایات کو زندہ رکھنا چاہتے ہیں اور ہر ایک کے غم کو اپنا سمجھتے ہیں۔“
انہوں نے کہا کہ ہماری درخواست ہے جاری دہشت گردی کے خلاف قرآن و حدیث کی روشنی میں فتویٰ دیا جائے۔
اس کے علاوہ بنوں میں بھی ایک احتجاجی مظاہرہ کیا گیا جس کا اہتمام نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ (این ڈی ایم) نے کیا تھا۔ اس میں این ڈی ایم کے سربراہ محسن داوڑ نے بھی شرکت کی۔
انہوں نے اپنی تقریر میں کہا، ”خیبرپختونخوا میں ایک بھی پتھر ایسا نہیں جو بے گناہوں کے خون سے نہ رنگا ہو۔ ہمیں عہد کرنا ہوگا کہ مزید جنگ نہیں ہوگی۔“
محسن داوڑ جو ایک رکنِ قومی اسمبلی بھی ہیں، کہتے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف جدوجہد کو سیاسی ہونا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ ”پشتون عوام خود کو جنگ میں معاون نہیں بننے دیں گے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پشتون عوام کے نقصانات کے باوجود ان کے حالات میں کوئی بہتری نہیں آئی۔ کسی نے ہمارے آنسو نہیں پونچھے۔“
انہوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے تناظر میں پشتون بچوں کی حالت پر بات کرتے ہوئے ہجوم سے پوچھا کہ ”ہمارے بچے کب تک جوتے پالش کریں گے اور سیکیورٹی گارڈز کے طور پر کام کریں گے؟“
انہوں نے مزید کہا کہ وزیرستان میں تبدیلی ناگزیر ہے، جس کا پہلا قدم قبائلی علاقے میں یونیورسٹی ہوگی۔
اس موقع پر مداخیل وزیر قبیلے نے اعلان کیا کہ وہ این ڈی ایم کے ساتھ کھڑے ہیں۔
محسن داوڑ نے انہیں بتایا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ سے ہونے والی تباہی کے بعد ان کی بحالی کو یقینی بنایا جائے گا۔