پشاور پولیس لائن کی مسجد میں خودکش حملے اور اس کے نتیجے میں ہونے والی 100 سے زائد شہادتوں کے بعد حکومتِ پاکستان نے افغان طالبان کے ”روپوش“ سپریم لیڈر سے مدد لینے کا فیصلہ کیا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے ”اے ایف پی“ کے مطابق اسلام آباد افغان طالبان کے سربراہ ملّا ہیبت اللہ اخوندزادہ سے پاکستان میں موجود عسکریت پسندوں کو لگام ڈالنے کے لیے کہے گا۔
کابل میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد پاکستان کے افغان سرحد سے متصل علاقوں میں ہونے والے حملوں میں ڈرامائی طور پر اضافہ دیکھا گیا ہے۔
عسکریت پسند حملے کرنے اور بچنے کے لیے ان ناہموار علاقوں کا استعمال کرتے ہیں۔
تفتیش کاروں نے پشاور میں پیر کو ہونے والے دھماکے کے لیے خطے کی سب سے بدنام عسکریت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی ایک ذیلی تنظیم کو مورد الزام ٹھہرایا ہے۔
ٹی ٹی پی، افغان طالبان جیسے ہی نظریات رکھتی ہے اور افغان طالبان کی قیادت ہیبت اللہ اخوندزادہ کر رہے ہیں، جو جنوبی شہر قندھار میں اپنے کسی ٹھکانے سے احکام جاری کرتے ہیں۔
وزیر اعظم شہباز شریف کے معاون خصوصی فیصل کریم کنڈی نے اے ایف پی کو بتایا کہ وفود تہران اور کابل بھیجے جائیں گے تاکہ ”ان سے کہا جائے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں دہشت گرد ان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہ کریں۔“
صوبہ خیبر پختونخواہ کے ایک سینئر پولیس اہلکار نے اے ایف پی کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ کابل کا وفد ”اعلیٰ حکام سے بات چیت“ کرے گا۔انہوں نے کہا کہ، ”جب ہم اعلیٰ حکام کہتے ہیں، تو اس کا مطلب ہوتا ہے… افغان طالبان کے سربراہ ہیبت اللہ اخوندزادہ۔“
افغان حکام نے اس خبر پر تبصرے کے لیے اے ایف پی کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔
لیکن بدھ کو افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی نے خبردار کیا کہ پاکستان کو ”الزام دوسروں پر نہیں ڈالنا چاہیے“۔
پاکستان پر 20 سالہ امریکی اقتدار کے دوران افغان طالبان کی خفیہ مدد کرنے کا الزام لگایا جاتا ہے، حالانکہ ملک نے امریکہ کے ساتھ فوجی اتحاد کا اعلان کیا تھا۔
لیکن 2021 میں جب سے افغان طالبان نے کابل پر قبضہ کیا ہے پاکستان کے ساتھ ان کے تعلقات میں تناؤ آگیا ہے۔
جس کی ایک وجہ پاکستانی طالبان، جنہیں تحریک طالبان پاکستان (TTP) کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، کے دوبارہ سر اٹھانا بھی ہے۔
افغان طالبان سے علیحدگی اختیار کرنے والے پاکستانی عسکریت پسندوں نے 2007 میں ٹی ٹی پی تشکیل دی تھی۔
ایک وقت میں ٹی ٹی پی شمال مغربی پاکستان کے بڑے حصے پر اپنا تسلط رکھتی تھی، لیکن 2014 کے بعد فوجی کارروائی کے ذریعے اسے شکست دی گئی۔
لیکن پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز کے مطابق، طالبان حکومت کے پہلے سال کے دوران پاکستان نے عسکریت پسندوں کے حملوں میں 50 فیصد اضافہ دیکھا، جو افغانستان اور ایران کے ساتھ سرحدی علاقوں میں مرکوز تھے۔
مئی 2022 میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملالہ یوسفزئی کو گولی مارنے کے لیے بھی مشہور ٹی ٹی پی نے ”طالبان کے قبضے سے افغانستان میں تمام غیر ملکی انتہا پسند گروپوں میں سے سب سے زیادہ فائدہ اٹھایا“۔
گزشتہ سال کابل نے اسلام آباد اور ٹی ٹی پی کے درمیان امن مذاکرات کیلئے ثالثی کی تھی، لیکن اس ثالثی کے نتیجے میں ہونے والی جنگ بندی اب ختم ہو گئی ہے۔