امریکہ نے خواتین کی ملازمت اور تعلیم پر پابندی کے جواب میں متعدد موجودہ اور سابق طالبان رہنماؤں پر نئی ویزا پابندیاں عائد کر دی ہیں۔
امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کا یہ اعلان طالبان کی جانب سے خواتین اور لڑکیوں کے حقوق سلب کرنے، ان پر یونیورسٹیوں میں جانے اور غیر سرکاری تنظیموں کے ساتھ کام کرنے پر پابندی عائد کرنے کے بعد سامنے آیا ہے۔
بلنکن نے اپنے بیان میں کہا، ”میں آج طالبان کے موجودہ یا سابق ارکان، غیر ریاستی سیکورٹی گروپس اور دیگر افراد پر اضافی ویزا پابندیاں عائد کر رہا ہوں جو افغانستان میں خواتین اور لڑکیوں کے حقوق دبانے کے ذمہ دار یا اس میں ملوث ہیں“۔
انہوں نے کہا کہ طالبان کی جابرانہ کارروائیوں میں ”خواتین کو یونیورسٹیوں اور این جی اوز کے ساتھ کام کرنے پر پابندی لگانے کا فیصلہ شامل ہے۔“
تاہم، امریکی محکمہ خارجہ کے بیان میں اس اقدام سے متاثر ہونے والوں کے نام نہیں بتائے گئے۔
بلنکن نے طالبان کے دیگر اقدامات پر بھی روشنی ڈالی، جنہوں نے 2021 میں اس گروپ کے افغانستان پر کنٹرول کے بعد سے خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کو مجروح کیا ہے۔
بلنکن نے مزید کہا کہ تعلیم اور کام تک مساوی رسائی فراہم کرنا ”پوری آبادی کی زندگی اور لچک کا ایک لازمی جزو ہے۔“
انہوں نے کہا کہ ان اقدامات سے عالمی سطح پر طالبان کے موقف کو ٹھیس پہنچے گی۔
امریکی وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ ”طالبان اس وقت تک عالمی برادری کے احترام اور حمایت کی توقع نہیں کر سکتے جب تک وہ خواتین اور لڑکیوں سمیت تمام افغانوں کے انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کا احترام نہیں کرتے۔“
بلنکن نے ایک بار پھر عہد کیا کہ واشنگٹن اتحادی ممالک کے ساتھ مل کر کام جاری رکھے گا تاکہ ”طالبان پر واضح کیا جا سکے کہ انہیں اپنے اقدامات کی بھاری قیمت چکانی پڑے گی اور بین الاقوامی برادری کے ساتھ بہتر تعلقات کا راستہ بند ہو جائے گا۔“
15 اگست 2021 کو اقتدار میں واپس آنے کے بعد، طالبان نے افغان خواتین پر سخت پابندیاں عائد کردی ہیں، ان پر سرکاری ملازمتیں رکھنے، سیکنڈری سکولوں اور یونیورسٹیوں یا پارکوں میں جانے پر پابندی لگا دی گئی ہے۔