اسلام آباد ہائی کورٹ نے پی ٹی آئی کی جانب سے ممنوعہ فنڈنگ کیس میں الیکشن کے فیصلے کو چیلنج کرنے والی درخواست خارج کردی۔
ممنوعہ فنڈنگ کیس میں الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس عامر فاروق، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب اور جسٹس بابر ستار پر مشتمل لارجر بینچ نے محفوظ فیصلہ سنایا.
عدالت نے تحریک انصاف کی درخواست مسترد کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ درست قرار دے دی اور الیکشن کمیشن کی جانب سے پی ٹی آئی کو شوکاز نوٹس جاری کرنے کا عمل بھی درست قرار دیا گیا ہے۔
پی ٹی آئی نے ممنوعہ فنڈنگ کیس میں الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کردہ فیصلہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔
پی ٹی آئی کے ایڈیشنل سیکریٹری جنرل عمر ایوب نے الیکشن کمیشن کے خلاف درخواست دائر کی جس میں الیکشن کمیشن کو فریق بنایا گیا تھا۔
درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی تھی کہ ممنوعہ فنڈنگ کیس میں الیکشن کمیشن کا دو اگست کو سنایا گیا فیصلہ کالعدم قرار دیا جائے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے 2 اگست کو پاکستان تحریک انصاف کے خلاف 2014 سے زیر التوا ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے کہا گیا تھا کہ یہ ثابت ہوگیا پی ٹی آئی نے ممنوعہ ذرائع سے فنڈنگ حاصل کی۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے 2 اگست کو سنائے گئے فیصلے کی روشنی میں عمران خان کو شوکاز نوٹس جاری کر کے 23 اگست کو پیش ہونے کی ہدایت کی گئی تھی۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پی ٹی آئی ممنوعہ فنڈنگ کیس میں عمران خان کے بیان حلفی کو غلط قراردیتے ہوئے شوکاز نوٹس جاری کرکیا تھا۔
چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی سربراہی میں پی ٹی آئی ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے 3 رکنی بینچ نے ’متفقہ‘ فیصلے میں کہا کہ پاکستان تحریک انصاف پرممنوعہ فنڈز لینا ثابت ہوگیا ہے۔
الیکشن کمیشن نے68 صفحات پر مبنی فیصلے میں قراردیا کہ پی ٹی آئی نے امریکا سے ایل ایل سی فنڈنگ حاصل کی تھی، جبکہ عمران خان نےالیکشن کمیشن میں غلط بیان حلفی جمع کرایا، چیئرمین پی ٹی آئی نے 2008 سے 2013 تک غلط ڈیکلیریشن دیے۔ پارٹی نے 34 غیرملکیوں اور عارف نقوی سے فنڈزلیے ہیں۔