پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما صداقت علی عباسی پوچھتے ہیں کہ کیا شہباز شریف حکومت کے 10 مہینوں میں کوئی بھی ایسا کام کیا جو عمران خان دہشتگردی کے خلاف پالیسی کا متبادل ہو؟ انہوں نے کہا کہ شہباز شریف اور رانا ثناءاللہ اب بھی سربریدہ مرغی کی طرح دیوار میں ٹکریں مار رہے ہیں۔
آج نیوز کے پروگرام ”فیصلہ آپ کا“ میں میزبان اور سینئیر صحافی عاصمہ شیرازی کے ساتھ گفتگو میں صداقت علی عباسی نے کہا کہ عمران دور میں جو بھی پالیسی بنتی تھی وہ تمام ریاستی اور سیکیورٹی اسٹیک ہولڈرز کے تحت بنتی تھی۔
عاصمہ شیرازی نے جب لقمہ دیا کہ وہ (اسٹیک ہولڈرز) کون تھے تو صداقت عباسی نے کہا کہ جنرل (ر) باجوہ تھے۔ جس پر عاصمہ نے مزید لقمہ دیا کہ جنرل (ر) باجوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض تھے، تو آپ ان کے نام لیں نا۔
جس پر پی ٹی آئی رہنما نے جواب دیا کہ اس وقت کے سیکیورٹی اسٹیک ہولڈرز ایک ہوکر عمران خان کی ویژن کے مطابق چل رہے تھے، پھر عمران خان کی حکومت توڑ دی گئی اور ان کا اتحاد امریکا کے ساتھ ہوگیا۔
پروگرام میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور وفاقی وزیر برائے توانائی انجینئیر خرم دستگیر سے جب پوچھا گیا کہ دہشتگردی کیلئے عمران خان کو مورد الزام کیوں ٹھہرایا جارہا ہے، تو ان کا کہنا تھا کہ ”کیونکہ عمران خان جس بزدلانہ مصالحت کے داعی ہیں اس کے نتیجے میں پاکستان میں 83 ہزار پاکستانیوں کی قبریں ہیں، وہ قبریں میں کہاں لے کر جاؤں؟“
انہوں نے کہا کہ ”کہا گیا جی یہ تو اچھے لوگ ہیں ان سے بات کرنی چاہئیے، ان اچھے لوگوں نے 93 ہزار پاکستانی، چھ ہزار فوجی شہید کردئیے، کہاں لے کر جاؤں میں۔“
ان کا کہنا تھا کہ تاریخ نے عمران خان کو غلط ثابت کیا ہے، سانحہ آرمی پبلک اسکول کے بعد ہم نے کامیابی سے جنگ لڑی، لیکن عمران خان کی حکومت میں بزدلانہ مصالحت کی پالیسی کی وجہ سے یہ عفریت دوبارہ آیا ہے۔
خرم دستگیر نے کہا کہ 11 ستمبر 2021 کو صدر عارف علوی نے تحریک طالبان پاکستان کو عام معافی کی پیشکش کی تھی، پانچ دن بعد 16 ستمبر کو وزیر خارجہ نے دوبارہ پیشکش کی اور 19 ستمبر 2022 کو طالبان نے اسے مسترد کردیا تھا۔ انہوں نے کہا ہم تو آپ کے آئین کو مانتے ہی نہیں، آپ ہمیں کونسی معافی دے رہے ہیں۔ اس کے بعد دوبارہ مذاکرات ہوئے اور سیز فائر ہوا، لیکن نومبر 2022 میں جس کی ان کے پاس سوائے بزدلانہ مصالحت کے کوئی توجہی نہیں ہوسکتی انہوں نے عمران خان کی حکومت نے 100 ٹی ٹی پی کے پکڑے ہوئے لوگوں کو آزاد کردیا۔
خرم دستگیر نے کہا کہ ”یہ نومبر 2022 کا لگایا ہوا فیوز تھا جو کل پشاور میں پھٹا ہے۔“ انہوں نے مزید کہا کہ دہشت گردی کے معاملے میں کوئی گڈ ٹیررسٹ یا بیڈ ٹررسٹ نہیں ہوسکتے، جو پاکستانیوں اور افواج پاکستان کے قاتل ہیں ان کے ساتھ مصالحت نہیں ہوسکتی۔
ان کا کہنا تھا کہ پولیس لائن میں ہونے والا واقعہ اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ خیبرپختونخوا میں ان کی 9 سالہ حکومت سیکیورٹی کے معاملات میں مکمل طور پر ناکام تھی۔ پی ٹی آئی کی حکومت کے شروع میں بنوں میں بھی جیل توڑی گئی اور آخر میں بھی جیل توڑی گئی اور یہ بے بس تھے۔
پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے سینئیر صحافی اور تجزیہ نگار منیب فاروق نے کہا کہ ہمارے ملک میں کوئی وزیراعظم کُلی طور پر بااختیار نہیں ہوتا۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان کا جو ذہنی طور پر جھکاؤ رہا ہے اور انٹرویوز میں انہوں نے باتیں کہیں ہیں کہ وہ سیٹلمنٹ (بسانا) چاہتے تھے، چالیس پینتالیس ہزار لوگوں نے آنا تھا اور ان میں ٹی ٹی پی کے فائٹرز بھی تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ جس گروہ کے ڈی این اے میں دہشتگردی ہو آپ اسے عام انسانوں میں کیسے شامل کیسے کرسکتے ہیں۔ جو افواج کے سر کاٹ کر اس سے کھیلتے رہے ہوں، مسجدوں میں عام لوگوں کو مارا ہو وہ مسلمان تو دور کی بات انسان بھی نہیں ہیں۔ ایسے لوگوں کو آپ قومی دھارے میں شامل کرکے کس احمقانہ سوچ اور مشن پر خود کو لگا لیتے ہیں اور ریاست بھی اس جانب چل پڑتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ میں ایسے لوگوں کی سوچ پر ماتم کرتا ہوں کہ جو ناحق لوگوں کو ماریں، دہشت پھیلائیں اور آپ ان کے ساتھ معاہدے کریں۔
ایک سوال کے جواب میں خرم دستگیر نے کہا کہ پچھلے 10 مہینوں میں مغربی سرحد سے ہمارے اوپر حملے ہورہے تھے، اگچہ تشہیر نہیں کی گئی لیکن ہم نے دہشتگروں کے خلاف آپریشنز کئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ضرب عضب کے دوران قبائلی علاقوں میں جنگی سطح پر آپریشن ہوئے تھے، لیکن اب کیونکہ پاکستان میں کوئی قبائلی علاقے نہیں ہیں تو کیا ہم اس طرح کے آپریشن کرنے کا سوچ سکتے ہیں؟
وفاقی وزیر نے بتایا کہ وزیراعظم شہباز شریف قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بلائیں گے، پارلیمان کے پاس بھی جائیں گے، آٹھ تاریخ کا پارلیمانی اجلاس نئی پالیسی بنانے کے حوالے سے بڑا اہم ہے۔
خرم دستگیر کی بات کا جواب دیتے ہوئے صداقت علی عباسی نے کہا کہ ن لیگ کی دہشتگردی کے خلاف کوئی پالیسی نہیں رہی، دہشتگرد چھوڑنے کی جو بات کی گئی وہ جون 2022 میں چھوڑے گئے تھے، اس وقت کس کی حکومت تھی وہ آپ ان سے پوچھ لیں۔
انہوں نے کہا کہ پولیس کا دہشت گردی کنٹرول کرنے میں اتنا زیادہ رول نہیں ہوتا، اصل رول انٹیلی جنس اداروں کا ہوتا ہے۔ اداروں کو تو ان لوگوں کے کن کاموں پر لگایا ہوا ہے، سیاستدانوں کی آڈیو ویڈیو ٹیپ آرہی ہیں، کسی نے کسی کو منشی کہہ دیا تو یہ ان کے پیچھے لگے ہوئے ہیں۔
صداقت علی عباسی نے کہا کہ سیلاب کے بہانے انہوں نے کراچی کے بلدیاتی الیکشن ملتوی کرائے، اب انتخابات میں 90 سے سوا 90 دن ہوئے تو گورنرز پر عدالتوں سے آرٹیکل 6 لگوائیں گے، اس حکومت کو الیکشن کرانے پڑیں گے۔
ایک سوال کے جواب میں خرم دستگیر نے کہا کہ شاہد خاقان عباسی نے واضح طور پر اپنے استعفے کی تردید کی ہے، انہوں نے کہا ہے کہ ایسا کوئی استعفا نہیں دیا وہ ابھی بھی پارٹی کے سینیر وائس پریزیڈنٹ ہیں۔