پاکستن تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چئیرمین اور سابق وزیر اعظم عمران خان نے اپنی مبینہ بیٹی ٹیریان وائٹ کو کاغذات نامزدگی میں ظاہر نہ کرنے پر نااہلی سے متعلق دائر درخواست پر اپنا عبوری جواب اسلام آباد ہائیکورٹ میں جمع کروا دیا ہے۔
بدھ کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں جمع کروائے گئے جواب میں کہا گیا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ ٹیریان سے متعلق ڈیکلریشن کے جائزے کا آئینی دائرہ اختیار نہیں رکھتی، اس نوعیت کا معاملہ متعلقہ فورم پر قابل سماعت ہو سکتا ہے۔
عمران خان کی طرف سے جمع کروائے گئے جواب میں کہا گیا کہ ماضی میں بھی چیف جسٹس اطہر من اللہ اور موجودہ چیف جسٹس عامر فاروق اس نوعیت کا کیس سننے سے انکار کر چکے ہیں۔
جواب میں مزید کہا گیا کہ مسلمہ اصول ہے اگر ایک بار جج کیس سننے سے انکار کر دے تو دوبارہ کسی جج کا یہ کیس سننا غیر مناسب ہے۔
سابق وزیر اعطم نے جمع کروائے گئے جواب میں کہا کہ ”چونکہ اب وہ رکن قومی اسمبلی نہیں رہے اس لیے یہ درخواست قابل سماعت نہیں، لہٰذا عدالت اس درخواست کو مسترد کرے۔“
اپنے جواب میں عمران خان نے سابق رکن قومی اسمبلی فیصل واوڈا کی طرف سے دہری شہریت چھپانے کے معاملے پر سپریم کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ”جب کوئی شخص عوامی عہدہ رکھتا ہو تو اس وقت ہی اس کے خلاف کوئی درخواست دائر کی جاسکتی ہے اور اگر کوئی شخص عوامی عہدہ چھوڑ دے تو اس کے خلاف اس قسم کی درخواست دائر نہیں کی جاسکتی۔“
واضح رہے کہ عمران خان نے بطور رکن قومی اسمبلی اپنے عہدے سے استعفا دے دیا تھا، تاہم ضمنی انتخابات میں انہوں نے قومی اسمبلی کے سات حلقوں سے کامیابی حاصل کی تھی اور الیکشن کمیشن ان کی کامیابی کا نوٹیفکیشن بھی جاری کرچکی ہے۔
عمران خان نے جواب میں اسلام آباد ہائیکورٹ کی طرف سے 21 جنوری 2019 میں ایک درخواست گزار حافظ احتشام کی طرف سے دائر کی گئی درخواست پر آنے والے فیصلے کا بھی حوالہ دیا، جس میں کہا گیا تھا کہ درخواست گزار چاہتا ہے عمران خان کی نجی زندگی کے معاملات کی تحقیقات کروائی جائیں اور اگر عمران خان اپنی مبینہ بیٹی کے والد قرار پائیں تو انہیں حقائق چھپانے کا الزام ثابت ہونے پر نااہل کیا جائے۔
اس فیصلے میں کہا گیا تھا کہ ”اگر عدالت اس معاملے میں جاتی ہے تو اس سے نہ صرف اس لڑکی کے حقوق متاثر ہوں گے، بلکہ عمران خان جس حلقے سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے ہیں ان کے ووٹرز کے حقوق بھی متاثر ہوں گے۔“
عمران خان کی نااہلی سے متعلق دائر کی جانے والی درخواست کی اب تک سات سے زیادہ سماعتیں ہوچکی ہیں، تاہم اسلام آباد ہائیکورٹ ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کرسکی کہ یہ درخواست قابل سماعت ہے بھی یا نہیں۔