پشاورخودکش حملے کے حوالے سے سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے اہم ریمارکس دیے ہیں کہ کبھی کہا جاتا ہے دہشت گردوں سے مذاکرات کرو، اس دوران ریاست کہاں ہے؟
جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے قتل کے مقدمے کے کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے، جس میں انہوں نے سوال اٹھایا کہ دہشت گردوں سے مذاکرات کیوں کیے جا رہے ہیں؟
عدالت عظمیٰ کے جج نے ریمارکس دیے کہ دہشت گردوں سے کب تک ڈریں گے؟ کہا جاتا ہے کہ دہشت گردوں کو یہ دو وہ دو اور کبھی کہا جاتا ہے دہشت گردوں سے مذاکرات کرو، اس دوران ریاست کہاں ہے؟ دہشت گردوں سے مذاکرات کیوں کیے جارہے ہیں؟۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ آج دہشت گرد 2 بندے ماریں گے کل کو 5 مار دیں گے، پتہ نہیں ہم کس معاشرے میں رہ رہے ہیں، ایک جج نے دہشت گردی کے واقعے پر رپورٹ دی لیکن اس کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا۔
سپریم کورٹ کے جج نے مزید ریمارکس دیے کہ لمبی داڑھی رکھنے سے بندہ مسلمان یا اچھا انسان نہیں بن جاتا، ہمارے ایک جج کو مار دیا گیا کسی کو پرواہ ہی نہیں۔
واضح رہے کہ 29 جنوری کو پشاور پولیس لائنز کی مسجد میں ہونے والے خود کش دھماکے میں اب تک امام مسجد اور اہلکاروں سمیت 101 افراد شہید ہوچکے ہیں، دھماکا عین نمازِ ظہر کے وقت ہوا جہاں حملہ آور پہلی صف میں موجود تھا۔
اطلاعات کے مطابق حملہ آور نمازیوں کے ساتھ تھانے کے مرکزی دروازے سے داخل ہوکر تین حفاظتی حصار عبور کرکے مسجد میں داخل ہوا اور خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔