پشاورپولیس لائنزکی مسجد میں ہونے والے بم دھماکے میں 100 سے زائد قیمتی جانوں کے ضیاع کے بعد یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے طالبان کے ساتھ سیز فائرکا فیصلہ درست تھا کیونکہ افغانستان میں طالبان کے برسر اقتدار آنے کے بعد سے مقتدر حلقے ایسے خدشات کا اظہار کر رہے تھے کہ کالعدم ٹی ٹی پی اب پھر سے منظم ہو گی۔
آج نیوز کے پروگرام، ’فیصلہ آپ کا ’میں میزبان عاصمہ شیرازی نے ایسے ہی سوالوں کا جواب جاننے اور موجودہ فضا میں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے مستقبل پربات کرنے کے لیے خیبرپختونخوا کے سینیئرصحافیوں فخرکاکاخیل، محمود جان بابر اورعادل شاہ زیب کو مدعو کیا جو ان معاملات پرگہری نظررکھتے ہیں۔
پشاوردھماکے کے بعد گزشتہ روزایوان میں کی گئی تقاریراور ماضی میں عمران خان کی جانب سے سیز فائراور طالبان کے فیصلے سے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے عادل شاہ زیب کا کہنا تھا کہ اے پی ایس کے بعد یہ دوسرا بڑا دہشتگردی کا واقعہ تھا۔ 100 گھروں کی بربادی کا ذمہ دار پالیسیوں کوقراردیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہمارے جیسے لوگ چیخ چیخ کر کہہ رہے تھے کہ افغانستان میں طالبان آگئے ہیں اور ہمارے یہاں کاکلعدم تنظمیں ٹی ٹی پی کی صورت میں مضبوط ترہوں گی کیونکہ یہ 20 سال امریکا کیخلاف افغان طالبان کی لڑائی میں شامل رہے ہیں۔ طلبان نے ملا ہبت اللہ کے ہاتھ پر بیعت کی ہوئی ہےاور ٹی ٹی پی والے ان کا حکم مانتے ہیں، افغان طالبان اسی لیے کھل کران واقعات کی مذمت نہیں کررہے ۔ چیزیں واضح تھیں لیکن ہمارے سیاستدان اور پالیسی ساز سوئے رہے، ہم چیخ چیخ کرکہتے رہے کہ سوات، شانگلہ ، بونیرمیں ان کی واپسی ہوچکی ہے، لوگوں نے مدد کی اہیل کی لیکن سابق وزیراعظم (عمران خان )سمجھتے تھے کہ طالبان غلامی کی زنجیریں تڑوارہے ہیں۔
عادل شاہ زیب نے شیخ رشید کی بطوروزیرداخلہ گزشتہ سال 22 فروری کی تقریرکا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ دہشتگری کے واقعات میں اضافے کا پتہ تھا تو کس مینڈیٹ کے تحت آپ نے ٹی ٹی پی سے معاہدہ کیا۔
ری گروپنگ سے متعلق وفاقی اور صوبائی حکومت کی بےخبری سے متعلق سوال پرفخرکاکا خیل نے کہا کہ اگست 2022 میں یہ سوات کے اندرآئے، جنرل فیض اور پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے ان کے ساتھ مذاکرات کی بات شروع کی گئی، ایڈجسٹمنٹ کے تحت 100 یا زائد طالبان کو رہا کیا گیا، سوات ، باجوڑ اور ملحقہ علاقون میں یہ آئے تو لوگ سڑکوں پرنکل آئے جس کے بعد اس معاملے میں کمی دیکھی گئی لیکن موجودہ معاملات میں ہمیں توجہ دینی چاہیئے کہ امریکی ڈیفنس کمیٹی کا خود ماننا ہے کہ وہ افغانستان میں 7 ارب ڈالرکا اسلحہ چھوڑ کرگئے ہیں، دوسری جانب خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی حکومت نے صوبے کو ساڑھے 3 ارب کا مقروض بنادیا ہے۔
پشاور دھماکے کی ذمہ داری لینے پر ایک جانب ٹی ٹی پی کی جانب سے انکار کیا جارہا ہے تو دوسری جانب اسی گروپ کے کچھ لوگ اسے قبول کررہے ہیں۔ یہ صورتحال نومبر1989میں لے جاتی ہے، 40 سال کہا جاتا رہا روس کیخلاف جہاد ہے پھر خانہ جنگی شروع ہوئی اور ہھر امریکا آیا،20 سال سے کہا گیا جب تک امریکا افغانستان میں ہے پاکستان میں امن نہیں ہوسکتا۔ ٹی ٹی پی کے کچھ جہادی گروپوں کا ماننا ہے کہ امریکا چلا گیا اورپاکستان کبھی اس جنگ میں اس کا اتحادی نہیں رہا تو اب ہمیں شریعت کے تحت وقت گزارنا چاہیے لیکن دوسری جانب جہادیوں کا ماننا ہے کہ پاکستان میں جمہوریت ہے، کفری نظام ہے تو اب ہمیں پاکستان کو بھی شکست دینی ہوگی۔ ان معاملات پر ہماری نظر ہونی چاہیے۔
محمود جان بابرسے دھماکے کا نتیجہ سیکیورٹی لیپس اور طالبان کے اپنے اندر تقسیم کا شاخسانہ ہونے سے متعلق پوچھا گیا جس پر ان کا کہنا تھا کہ واضح ہے کہ یہ سیکیورٹی لیپس تھا اور عین ممکن ہے آئی اور چیف سیکرٹری کوتبدیل کردیا جائے۔ یطالبان کے معاملے پر یکسوئی نہیں ہے، یہ کہاجاتا رہا کہ ہم ان سے نمٹ چکے ہیں ، آپریشن کرچکے ہیں لیکن 2014 میں اے پی ایس حملے کے بعد جب آپریشن ہوا تو5 گروپ بنے تھے سب سے بڑا گروپ افغانستان چلاگیا،ایک نے تبلیغ کا راستہ اختیار کیا،جماعت الاحرار والے بھی افغانستان چلے گئے لیکن محسود یہیں رہے تو یہ کہنا کہ سب باہرسے آئے ہیں، درست نہیں کیونکہ زیادہ تر یہیں تھے اور خاموش تھے۔ کچھ لوگ یہاں آئے لیکن سب کے سب باہرسے نہیں آئے۔
عمران خان کی جانب سے پاکستان میں 5 سے 7 ہزار افراد کی آمد اور ان کی ری سیٹلمنٹ والے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے محمود جان بابرنے مزید کہا کہ گزشتہ سال کے اختتام پرمینافغانستان گیا تو ٹی ٹی پی کے لوگوں سے بات ہوئی، مذاکرات کرنے والوں کے علاوہ بہت سے دیگرگروپ ان سے ناراض تھے کہ پاکستان سے بات نہ کریں،ٹی ٹی پی کل کے واقعے کی ذمہ داری لیتی تو اس کا قدکاٹھ بڑھ جاناتھا لیکن انہوں نے فاصلے پررہنے کو ترجیح دی جس کی وجوہات ہیں، ان سے ہٹنے والے لوگوں کے کچھ دوست افغانستان میں مارے گئے اور انہوں نے کہا کہ اب ہم اس کا بدلہ پاکستان سے لیں گے۔
عادل شاہ زیب کا کہنا تھا کہ وزیراعظم پالیسی ساز اداروں کو پارلیمان میں آکر واضح بتانا چاہیے کہ کیا افغان طالبان اور ریاست پاکستان کیخلاف لڑنے والے طالبان میں ابھی بھی گڈ اور بیڈ کی تفریق ہے یا ایک ہی سکے کے 2 رخ ہیں۔ کے پی میں پی ٹی آئی حکومت تھی تو کتنے ہی ایسے واضح بیانات آئے کہ وزیراعلٰی سمیت کئی وزراء اور ایم پیز طالبان کو بھتہ دے رہے ہیں تو انہوں نے لوگوں کی حفاظت کیسے کرنی تھی۔ اگر ملک کا وزیرداخلہ آج کرسوال اٹھائے کہ طالبان سے بات کا فیصلہ کس نے کیا تو عمران خان تو اس بات کو قبول کررہے ہیں کہ فیصلہ ان کا تھا لیکن کیا قومی قیادت کو اس حوالےسے اعتمادمیں لیا گیا، آج کورکمانڈر کانفرنس میں پی ٹی آئی نہیں تھی تو اس حوالے سے تمام قیادت کو آن بورڈ لیا جائے۔
صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات سےمتعلق بات کرتے ہوئے عادل شاہ زیب نے کہا کہ معاشی صورتحال اور لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال دیکھتے ہوئے صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کو بھول ہی جائیں۔ پی پی اور ن لیگ کو بھی دھمکیاں مل چکی ہیں تو ایک آدھ جلسے میں ایسا واقعہ ہوجاتا ہے تو ان کے ووٹرزہی باہر نہیں نکلیں گے۔ فرنٹ لائن پرجو پولیس ان کیخلاف لڑ رہی ہیں ان کے پاس اپنے تھانے تک نہیں ہیں اور وہ اسکولوں میں پڑے ہوئے ہیں۔
کالعم ٹی ٹی پی کے ساتھ سیزفائرکے معاہدے کے پس پردہ محرکات کے حوالے سے فخر کاکا خیل نے کہا کہ طالبان کے ساتھ مذاکرت میں ناکامی کی وجہ یہی تھی کہ پی ٹی آئی اس تمام عمل میں کمزور گراؤنڈ پر کھیلتی رہی اور اندرونی حلقوں کا مانناتھا کہ ملا کنڈ سمیت ملحقہ علاقے ٹی ٹی پی کے حوالے کردیں گے۔ طالبان کو پی ٹی آئی کی شکل میں علی الاعلان سپورٹرز اورمالی امداد ملی۔ ڈھنگ کی حکومت ہوتی تو پی ٹی آئی کیخلاف یہی کیس بناتی کیونکہ ثبوت موجود ہیں، پی ٹی آئی نے اس سے انکار نہیں کیا اور ہم نے یہ بھی دیکھا کہ میڈیا پر آکرپی ٹی آئی کے لوگ طالبان کو اخلاقی سپورٹ دے رہے تھے۔
دھماکے کیلئے سہولت کاری کے سوال پرمحمود جان بابرکا کہنا تھا کہ ان دہشتگردوں، خود کش حمہ آوروں کو پرائیویٹ لگژری گاڑیوں میں لایا جاتا ہے جنہیں روکنے کا تصورہی نہیں کیا جاتا کیونکہ دیکھتے ہی پتہ چل جاتا ہے کہ یہ کسی کی ہیں،تو مسجد دھماکے میں جو بندہ اندرآیا دانستہ یا نادانستہ طور پر پولیس والے استعمال ہوئے ہیں۔ اندررہنے والے سویلین بھی دانستہ یا نادانستہ استعمال ہوئے۔ یہاں سیکیورٹی صبح 8 سے شام 5 تک الرٹ رہنے کے بعد آسان باش اورچیک پوسٹیں بھی ہٹ جاتی تھیں اور گیٹ پر بھی ایک یا دوسپاہی ہوتے تھے کہ افسرتو چلے گئے، یہ پولیس کا خیال تھا لیکن دہشتگردوں نے اس کمزوری کو استعمال کیا۔ بیرکوں میں بھی ہر قسم کے سپاہی رہتے ہیں، شام کو ان کے دوست بھی پاس آتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ 2013 اور2014 میں بھی اسی قسم کے حالات تھے، کرانا چاہیں تو الیکشن تو ہوسکتے ہیں کیونکہ ایسا نہیں کہ دھماکے تسلسل سے ہورہے ہیں لیکن الیکشن اگرنہ ہوں تو بہترہیں کیونکہ پولیس سیکیورٹی دے گی اور انہیں ہی ٹارگٹ کیا جاسکتا ہے، پولیس کا مورال ڈاؤن ہے۔