پشاور میں پولیس لائنز دھماکے کا مقدمہ سی ٹی ڈی تھانہ ایس ایچ او تھانہ شرقی نعیم حیدر کی مدعیت درج کرلیا گیا، ایف آئی آر میں دہشت گردی کے دفعات شامل کی گئی ہیں۔
آئی جی خیبرپختونخوا معظم جاہ کا کہنا ہے کہ پشاور پولیس لائنز مسجد میں ہونے والے دھماکے میں 10سے 15 کلو بارودی مواد استعمال کیا گیا، حملہ آور کے سہولت کاروں کا پتا لگارہے ہیں۔
آئی جی کے پی پولیس نے پشاورمیں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ زیادہ اموات ملبےتلےدبنےکی وجہ سے ہوئیں، کالعدم تحریک طالبان نے پہلے ذمہ داری لینے کااعلان کیا اور پھرکہا کہ دھماکہ ہم نے نہیں کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ وزیراعلٰی کے حکم پرتحقیقات کے لیے انٹرایجنسی جے آئی ٹی تشکیل دی جارہی ہے جس میں پولیس، حساس ادارے اور دیگر تحقیقاتی اداروں کے نمائندے شامل ہوں گے۔
آئی جی نے بتایا کہ تحقیقاتی کمیٹی کی سربراہی سینیئر ڈی آئی جی کریں گے جو پشاور پولیس کا حصہ نہیں ہوں گے۔
آئی جی خیبر پختونخوا کے مطابق یہ پولیس لائن پانچ چھ سو لوگوں اور ایک ایس پی کے لیے بنی تھی، آج یہاں چھ ڈی آئی جیز کے دفاتر ہیں جب کہ چھ مختلف یونٹس یہاں موجود ہیں۔
آئی جی کے مطابق اس پولیس لائن کی کوئی سینٹرل کمانڈ یہاں نہیں تھی، اس لیے تلاشی کا میکینزم گیٹ کی حد تک موجود تھا۔
معظم جاہ کا کہنا تھا کہ پولیس لائنز میں کینٹینیں بھی ہیں اور تعمیراتی کام بھی چل رہا تھا اس دوران تھوڑا تھوڑا کر کے یہاں بارودی مواد لایا گیا۔
آئی جی کے مطابق حملہ آور پیر کو ہی جیکٹ پہن کر نہیں داخل ہوا بلکہ سامان تھوڑا تھوڑا کر کے یہاں لاتا رہا۔
انہوں نے کہا کہ خودکش حملہ اس دوران سائلین کے روپ میں یا مہمانوں کے روپ میں داخل ہوا، البتہ سکیورٹی کی ناکامی کے لیے تحقیقات کی جا رہی ہیں۔
پشاور دھماکے سے متعلق تفصیلات بتاتے ہوئے آئی جی خیبر پختونخوا کا کہنا تھا کہ ہمارا اندازہ ہے بارودی مواد 10 سے 12 کلو تک ہو سکتا ہے۔ دھماکے کے ساک کی وجہ سے پوری چھت نیچے آئی، ملبے تلے دبنے کے باعث ذ یادہ جانی نقصان ہوا۔
آئی جی خیبرپختونخوا نے کہا کہ اس بات کی مکمل تحقیق کی جائے گی کہ خودکش حملہ آور کے سہولت کار کون تھے اور وہ کس طرح یہاں پہنچا۔