اسپیشل جج سینٹرل اسلام آباد نے متنازعہ ٹوئٹ کیس میں اعظم سواتی کو کیس کا ریکارڈ فراہم کرنے کی ہدایت کردی۔
اسپیشل جج سنٹرل جج اعظم خان نے اعظم سواتی کے خلاف متنازعہ ٹوئٹ کیس کی سماعت کی۔
اعظم سواتی عدالت میں پیش ہوئے اور مؤقف اپنایاکہ اس عدالت کا امتحان ہے میں نہ ملک کا اور نہ قانون کا مجرم ہوں جب چیف جسٹس مجھے انصاف نہیں دے سکتے تو کیا ہوگا؟ لوگوں کا عدلیہ سے اعتباراٹھ رہا ہے، کچھ لوگ ہیں جوآج انصاف کر رہے ہیں۔
جج اعظم خان نے ریمارکس دیے کہ انشا اللہ انصاف ہی ہو گا۔
علی بخاری ایڈووکیٹ نے کہا کہ اعظم سواتی کو وکیل کی خدمات حاصل کرنے کا موقع فراہم کیا جائے، ریکارڈ کی تصدیق شدہ نقول اعظم سواتی کوملنا ان کا قانونی حق ہے الزام معلوم ہوگا تواعظم سواتی دفاع کریں گے۔
عدالت نے آئندہ سماعت پر اعظم سواتی کو کیس کا ریکارڈ فراہم کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت 28 مارچ تک ملتوی کردی۔
سابق وزیر ریلوے اعظم سواتی کو 13 اکتوبر کو قانون نافذ کرنے والے ادارے نے اسلام آباد چک شہزاد کی رہائش گاہ سے گرفتارکیا تھا۔
خاندنی ذرائع نے اعظم سواتی کی گرفتاری کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا تھا کہ رات 3 بجے کچھ افراد فارم ہاؤس پر آئے اور اعظم سواتی کو گرفتار کرکے اپنے ساتھ لے گئے۔
خاندانی ذرائع نے مزید بتایا کہ سینیٹر اعظم سواتی کو وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) نے گرفتار کیا جبکہ ایف آئی نے فوری طور پر اس کی تصدیق یا تردید نہیں کی۔
جس کے بعد ایف آئی اے نے اعظم سواتی کے خلاف پیکا قانون کے تحت مقدمہ درج کیا گیا، مقدمے میں 20،131،500 اور 505 کی دفعات شامل تھیں۔
مقدمے میں شامل تعزیت پاکستان کی دفعہ میں بتایا گیا کہ اعظم سواتی نے بد نیتی پرمبنی ٹویٹ کیا جو کہ مقاصد کی تکمیل کے لئے انتہائی تضحیک آمیز تھا، اعظم سواتی نے ریاستی اداروں کو براہ راست نشانہبنایا۔
ایف آئی اے کے مقدمے میں متنازع ٹویٹ کا متن بھی شامل ہے، جس میں کہا گیا کہ ٹویٹ اداروں میں تقسیم پھیلانے کی گھناؤنی سازش ہے۔
یاد رہے کہ اعظم سواتی منی لانڈرنگ اور فارن فنڈنگ کیس میں نامزد تھے، ایف آئی اے نےفارن فنڈنگ کیس میں چیئرمین تحریک انصاف عمران خان سمیت کل 11عہدیدارون کونامزد کیا۔