پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں ملک سعد خان پولیس لائنز کی مسجد میں نمازِ ظہر کے دوران خودکش دھماکہ ہو اجس کے نتیجے میں اب تک 59 افراد شہید اور کم از کم 157 زخمی ہوگئے۔
عینی شاہدین اور سیکیورٹی حکام کے مطابق خود کش حملہ آور فرض نماز کیلئے کھڑی ہونے والی جماعت کے دوران پہلی صف میں موجود تھا، جس نے امام کے تکبیر کہتے ہی خود کو اُڑا لیا۔
دھماکہ اس قدر شدید تھا کہ اس سے مسجد کی تمام کھڑکیاں اور دورازے ٹوٹ گئے، چھت کا کچھ حصہ منہدم ہوا اور مسجد کا ایک حصہ مکمل طور پر تباہ ہوگیا۔
مسجد میں دھماکے کے بعد قانون نافذ کرنے والے اہلکار موقع پر پہنچ گئے اور زخمیوں کو مختلف اسپتالوں میں پہنچانا شروع کر دیا۔
لیڈی ریڈنگ اسپتال کے ترجمان محمد عاصم کے مطابق سو سے زائد زخمیوں کو اسپتال لایا گیا ہے جن میں سے کچھ کی حالت تشویش ناک ہے۔
ترجمان کے مطابق زخمیوں میں پولیس اہلکار بھی شامل ہیں۔
لیڈی ریڈنگ اسپتال کے ترجمان نے 59 افراد کی ہلاکت اور 157 زخمی افرادکو طبی امداد دیے جانے کی تصدیق کی ہے۔
جہاں خود کش دھماکے میں کئی افراد شہید اور زخمی ہوئے، وہیں گرنے والی چھت کے ملبے تلے بھی بہت سے لوگ دب گئے، جنہیں نکالنے کیلئے سرچ اینڈ ریسکیو آپریشن شروع کیا گیا۔
ملبے تلے دبے افراد میں سے چار لاشوں اور دو زخمیوں کو تقریباً ساڑے آٹھ گھنٹوں کی جدوجہد کے بعد نکال لیا گیا۔ ریسکیو آپریشن میں بھاری مشینری استعمال کی گئی لیکن کام مزید زندہ لوگوں کی موجودگی کے امکان کے باعث کام احتیاط سے کیا جارہا ہے جس سے آپریشن تاخیر کا شکار ہوا۔
یہ بھی پڑھیں: پشاور دھماکہ: کئی افراد اب بھی ملبے تلے موجود، ’نیچے سے آوازیں آرہی ہیں‘
ریسکیو حکام کی جانب سے نکالے گئے زخمیوں اور شہیدوں کی لاشوں کو پشاور کے لیڈی ریڈنگ اسپتال اور حیات آباد میڈیکل کمپلیکس بھیجا گیا، جہاں ان کی فہرست مرتب کی گئی جو اسپتال کے دروازوں پر آویزاں کردی گئی۔
دھماکے کے فوری بعد لیڈی ریڈنگ اسپتال میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی اور قریبی شاہراہوں کو آمد و رفت کے لیے بند کر دیاگیا تاکہ زخمیوں کو اسپتال منتقل کرنے میں دشواری نہ ہو۔
زخمیوں کی تعداد اس قدر زیادہ تھی کہ اسپتال انتظامیہ، پولیس اور وزیراعظم نے شہریوں سے خون کے عطیات دینے کی اپیل کی۔
دوسری جانب ملک کی سیاسی قیادت اور دیگر ممالک نے خودکش حملے کی مذمت کی ہے۔
خودکش حملے کے بعد اسلام آباد، سندھ اور بلوچستان میں سیکیورٹی ہائی الرٹ کردی گئی ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف آرمی چیف جنرل عاصم منیر اور دیگر وفاقی وزراء کے ہمراہ پشاور پہنچے اور آئی جی خیبر پختونخوا پر برہمی کا اظہار کیا۔
وزیراعظم نے کہا کہ کہا کہ پولیس لائنز میں داخلےکا ایک ہی گیٹ ہے تو خودکش حملہ آور کیسے پولیس لائنز میں داخل ہوگیا؟
پشاور کی پولیس لائنز شہر کا اہم ترین علاقہ ہے، جہاں کئی اہم سرکاری عمارتوں کے علاوہ عدالتیں بھی ہیں۔
ریسکیو سروس 1122 کے ترجمان بلال فیضی کا کہنا ہے کہ دھماکے کے بعد ملبے کے نیچے 10 سے 15 افراد کے دبے ہونے کا اندیشہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کنکریٹ کی چھتیں کاٹ کر ملبے کے نیچے موجود افراد تک پہنچنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ پہلی ترجیح انسانی جان بچانا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ریسکیو 1122 کے پاس ایسے کیمرے موجود ہیں جن کی مدد سے ملبے کے نیچے دیکھا جا سکتا ہے، کوئی زخمی نظر آجائے تو اسی کیمرے کی مدد سے اس سے بات کرنا بھی ممکن ہے۔
ان کے مطابق آڈیو سینسرز کی مدد سے ملبے کے نیچے آوازیں سننے کی بھی کوشش کی جاتی ہے، اس سے دل کی دھڑکن بھی سنی جا سکتی ہے۔
انہوں نے امید ظاہر کی کہ ریسکیو آپریشن جلد مکمل کر لیا جائے گا۔
خیبر پختونخوا کے گورنر حاجی غلام علی نے متاثرہ علاقے کا دورہ کیا۔ دورے کے بعد میڈیا سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ مسجد کے ملبے میں لوگوں کے دبے ہونے کا اندیشہ ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ایسے واقعے کی حکومت کسی کو بھی اجازت نہیں دے سکتی۔
پشاور کے کیپٹل سٹی پولیس افسر (سی سی پی او) محمد اعجاز خان کا کہنا تھا کہ مسجد میں خود کش حملے کے امکان کو مسترد نہیں کر سکتے۔ صورتِ حال کلیئر ہونے پر دھماکے کی نوعیت کا اندازہ ہو سکے گا۔
صوبے کے گورنر حاجی غلام علی کے ہمراہ دھماکے کے مقام کا دورہ کرنے کے بعد میڈیا سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ نماز کے وقت مسجد میں لگ بھگ 400 افراد ہوتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پولیس لائنز میں دھماکہ ہو رہا ہے تو اس سے ایسا لگتا ہے کہ کوئی سیکیورٹی لیپس ہوگا اسی لیے دھماکہ ہوا۔
دھماکے سے ہونے والے نقصانات کے بارے میں انہوں نے کہا کہ مسجد کا پرانا ہال گر چکا ہے اور اس کی نئی عمارت کو بھی نقصان پہنچا ہے۔
پاکستان کے وزیرِ خارجہ چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے پشاور میں خودکش حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ضمنی اور عام انتخابات سے قبل دہشت گردی کے واقعات معنی خیز ہیں۔
ایک بیان میں انہوں نے عندیہ دیا کہ دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں کے ساتھ ساتھ سہولت کاروں کے خلاف سخت کارروائی ہوگی۔
انہوں نے زور دیا کہ نیشنل ایکشن پلان ہی دہشت گردوں کا علاج ہے، اس پر سختی سے عمل کیا جائے گا۔
وفاقی وزیرِ داخلہ رانا ثنا اللہ کا کہنا ہے کہ پشاور میں پولیس لائنز کی مسجد میں دھماکے کی تمام پہلوؤں سے تحقیقات کی جا رہی ہیں۔
سوشل میڈیا پر ایک بیان میں ان کا مزید کہنا تھا کہ وفاقی ادارے خیبر پختونخوا کی حکومت کی مکمل معاونت کر رہے ہیں۔
انہوں نے دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گرد انسانیت اور اسلام کے دشمن ہیں۔ انہوں نے عزم ظاہر کیا کہ دہشت گردی کو شکست دیں گے اور دشمنوں کی سازشوں کو ناکام بنائیں گے۔
وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ پولیس کو ہدف بنایا جا رہا ہے۔ دو چار ہفتے قبل بنوں میں سی ٹی ڈی کی عمارت کو نشانہ بنایا گیا تھا وہاں بھی پولیس کے اہلکار ہی موجود تھے۔
نجی ٹی وی چینل سے گفتگو میں خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ نیکٹا کو ایک بار پر متحرک کرنے کی ضرورت ہے جس طرح 10 سال قبل دہشت گردی پر قابو پایا گیا تھا۔
ان کے مطابق مساجد میں دہشت گردی سے مذہب کا چہرہ مسخ ہوتا ہے۔ اس طرح کے واقعات اسلام اور اسلامی دنیا کے بدنامی کا سبب بنتے ہیں۔
خواجہ آصف کے مطابق خیبر پختونخوا میں امن بحال کیا جائے گا۔