پشاور میں پولیس لائن میں خودکش دھماکے کے بعد ملبے تلے دبے افراد کو نکالنے کا عمل رات کو بھی جاری رہا۔ ریسکیو اہلکاروں نے مزید لاشیں ملبے سے نکالی ہیں جس کے بعد شہید ہونے والوں کی تعداد 102ہوگئی۔
لیڈی ریڈنگ اسپتال نے 102افراد کی شہادت کی تصدیق کردی۔
اسپتال ترجمان محمد عاصم کے مطابق ایل آر ایچ میں اس وقت 59 زخمی زیر علاج ہیں، اسپتالوں میں داخل دھماکے کے 51 زخمیوں کی حالت خطرے سے باہر ہے جبکہ 8 کی حالت تشویشن ناک ہے۔
اس سے قبل نگراں وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا اعظم خان نے پشاور پولیس لائنز مسجد دھماکے میں 95 افراد کے جاں بحق اور 221 افراد کے زخمی ہونے کی تصدیق کی تھی۔
دھماکے سے مسجد کا ایک حصہ گر گیا جس کے ملبے تلے نمازی دب گئے۔
ترجمان لیڈی ریڈنگ اسپتال نے تصدیق کی ہے کہ دھماکے میں شہید ہونے والے تمام افراد کی شناخت کرلی گئی۔ 185 افراد زخمی ہوئے۔
صوبائی محکمہ صحت کے مطابق دھماکے میں 185 افراد زخمی ہوئے جن میں سے 58 مختلف اسپتالوں میں زیرعلاج ہیں جبکہ 126 زخمیوں کو ڈسچارج کردیا گیا ہے۔ 50 زخمیوں کی حالت خطرے سے باہر اور 8 کی تشویشناک ہے۔
ایس پی آمنہ بیگ کے مطابق دھماکے میں شہید ہونے والوں میں سے کم ازکم 27 پولیس اہلکار ہیں۔ شہدا میں پیش امام، انسپکٹر، سب انسپکٹر،اہلکار، مسجد سے متصل کوارٹر میں رہائش پذیر خاتون بھی شامل ہیں۔
پولیس اہلکاروں کی اجتماعی نماز جنازہ رات کو ادا کی گئی۔ اس موقع پر لی گئی قومی پرچم سے ڈھکے تابوتوں کی ایک تصویر نے لوگوں کو لرزا دیا۔
حکام کے مطابق شہر کے مصروف علاقے سے متصل پولیس لائنز کی مسجد میں نمازظہر ادا کی جا رہی تھی جب ایک خود کش بمبار نے خود کو اڑا لیا۔
دھماکے کے فورا بعد آج ٹی وی پر نشر ہونے والے مناظر میں ایک مسجد کے مرکزی ہال بچی صفوں پر ملبہ دکھائی دیا۔
جائے وقوعہ کی فوٹیج سے ظاہر ہوتا ہے کہ دھماکہ مسجد کے اگلے حصے میں ہوا جس سے سامنے کی دیوار گر گئی اور محراب کے اوپر بنی چھت بھی تباہ ہوگئی۔ التبہ مسجد کی بالائی چھت اپنی جگہ موجود رہی۔
آج نیوز کے عزم رحمان کے مطابق پولیس لائن کی مسجد میں نہ صرف پولیس افسران اور اہلکار بلکہ علاقے کے کاروباری حضرات بھی نماز ادا کرتے ہے۔ پیر کا دن معمول سے زیادہ مصروف ہوتا ہے جس کی وجہ سے 200 سے 300 نمازی مسجد میں موجود تھے۔
سیکورٹی حکام کا کہنا ہےکہ پولیس لائنز میں ہونے والا دھماکا خودکش تھا اور خودکش حملہ آور مسجد کی پہلی صف میں موجود تھا جس نے نماز کے دوران خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔
دھماکے کے بعد پولیس اور سیکیورٹی فورسز کے دستے جائے وقوعہ پر پہنچ گئے۔ ریسکیو 1122 کی گاڑیاں بھی پہنچ گئیں۔
دھماکے کے بعد پشاور کے اسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کردی گئی۔ بیشتر زخمی شہر کے سب سے بڑے لیڈی ریڈنگ اسپتال منتقل کیے گئے، زخمیوں میں پولیس اہلکار بھی شامل ہیں۔
ترجمان کے مطابق کئی افراد بال بیئرنگز لگنے سے زخمی ہوئے۔
آج نیوز پشاور بیورو چیف فرزانہ علی کے مطابق دھماکے کے بعد لوگوں کی بڑی تعداد مسجد کے باہر جمع ہوگئی جو اندر جا کر اپنے پیاروں کی خیریت معلوم کرنا چاہتی تھی۔ خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا کہ دھماکے کے تقریباً ایک گھنٹے بعد بھی کچھ لوگ ملبے تلے دبے ہوئے تھے۔
تاہم سیکورٹی فورسز نے مسجد کو گھیرے میں لے لیا اور کسی کو اندر جانے کی اجازت نہیں دی جا رہی تھی۔
فرزانہ نے مزید بتایا کہ ملحقہ کوارٹرزکی چھتیں بھی متاثر ہوئی ہیں اور وہاں کی رہائشی خاتون جاں بحق ہوئیں جس کے بعد قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں کہ عین ممکن دہشتگرد نے یہیں رہائش اختیار کررکھی ہو، تاہم پولیس کی جانب سے فی الحال کسی قسم کی تفصیلات سامنے نہیں لائی جارہیں۔
دھماکے کی نوعیت بھی اپنی جگہ ایک سوالیہ نشان ہے کیونکہ وزیراعظم کو پیش کی جانے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حملہ خود کش تھا ۔ ایسے میں سوال اٹھتا ہے کہ حملہ آور اپنے ساتھ کتنا بارودی مواد لاسکتا تھا کیونکہ وہ نمازیوں کی صف میں شامل تھا۔ دوسری جانب دھماکے کی شدت سے مسجد کی چھت اور پلرز بھی گرے۔
پولیس لائنز دھماکے کی ابتدائی رپورٹ بم ڈسپوزل یونٹ نے سینٹرل پولیس آفس کو رپورٹ ارسال کردی۔
ذرائع کے مطابق دھماکے میں ابھی تک بال بیرنگ نہیں ملے، زیادہ نقصان چھت گرنے سے ہوا، جائے وقوعہ پر کوئی گڑھے کے شواہد نہیں ملے، بی ڈی یو ٹیم ملبہ ہٹانے کے بعد مزید شواہد اکھٹے کرے گی۔