سابق سیکریٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد کا کہنا ہے کہ پاکستان معاشی لحاظ سے دیوالیہ حد تک پہنچ چکا ہے، آئی ایم ایف کی شرائط کا پاکستان کی سیاست پر بھی اثر پڑے گا۔
آج نیوز کے پروگرام ”فیصلہ آپ کا“ میں میزبان عاصمہ شیرازی سے گفتگو میں کنورد دلشاد نے کہا کہ عمران خان کا مطالبہ ایک طرف، لیکن اب حالات کو دیکھتے ہوئے عسکری قیادت اور نیشنل سیکیورٹی کونسل کا اجلاس طلب کرنے کے بعد آئندہ انتخابات کا روڈ میپ تیار کرنا چاہئیے۔
سابق سیکریٹری الیکشن کمیشن نے کہا کہ انتخابات ایک ہی دن ہونے چاہئیں، 124 سیٹوں پر انتخابات نہیں ہونے چاہئیں، یہ بہت بڑی ایکسرسائز ہے، اسی طرح دو صوبوں میں بھی انتخابات بہت بڑا کام ہیں۔
عام انتخابات سے 120 دن پہلے ضمنی انتخاب کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن قانونی طور پر تیاریاں تو مکمل کرے گا، لیکن حالات دیکھیں کہ ریاست اتنے بڑے انتخابات کی متحمل نہیں ہوسکتی، آپ دو صوبوں میں انتخابات کروا رہے ہیں، ضمنی انتخابات کروانے ہیں، اسلام آباد پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کروانے ہیں، اس لئے بہتر ہے کہ آئندہ انتخابات ہی کروا لیں۔
کنور دلشاد نے کہا کہ عمران خان کے خلاف بھی بے شمار مقدمات ہیں اور وہ بھی بالکل نااہلیت کے دروازے پر کھڑے ہیں، بہت بڑے فیصلے آںے والے ہیں۔
صوبوں میں نگراں سیٹ اپ کی مدت میں اضافے کے امکانات پر ان کا کہنا تھا کہ ایسا بالکل ہوسکتا ہے، گورنر نے ابھی تک شیڈول نہیں دیا ہے، آئین میں لکھا ہے کہ گورنر نے انتخابات کی تاریخ دینی ہوتی ہے، پانچ سال کیلئے صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ہوتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ وفاقی انتخابات کی تاریخ صدر پاکستان نے چیف الیکشن کمیشن کی مشاورت سے دینی ہوتی ہے، لیکن صوبوں میں گورنر خودمختار ہیں کہ اپنا صوابدیدی اختیار استعمال کرکے تاریخ دیں۔ اگر حالات خراب ہوجاتے ہیں یا الیکشن کیلئے ناہموار ہوں تو وہ الیکشن کمشنر کی مشاورت سے انتخابات تین مہینے آگے بڑھانے کی پوزیشن میں ہیں۔
انتخابات سے ملکی مسائل حل ہونے کے سوال پر پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر عون عباس بپی نے کہا کہ لوگوں کو بڑی تکالیف ہیں، ان کے پاس عوام کی تکالیف کا کوئی حل نہیں ہے، انہوں نے جو کرنا ہے وہ کرکے رہنا ہے، ایک دن کسی نے آکر آٹھ بجے کہہ دینا ہے کہ الیکشن ایک سال کیلئے مؤخر ہو رہے ہیں۔
وفاقی وزیر تعلیم رانا تنویر حسین کا عون عباس کے جواب میں کہنا تھا کہ 2018 کے الیکشن فیئر ہوتے تو ان کے 80 فیصد لوگ نہیں ہوتے، ہم تو پرانے بیٹھے ہوئے ہیں۔
رانا تنویر نے کہا کہ انہوں نے استعفے دیئے تو کہتے تھے ہمارے استعفے منظور کریں، یہ اسمبلی میں ہوتے تو ہمارے لئے حکومت چلانا مشکل ہوتا۔ آپ دو حکومتوں میں تھے، وہاں ترقیاتی کام کرتے، مثبت طریقے اپناتے تو ہمیں ناکوں چنے چبوا سکتے تھے۔رانا تنویر کا کہنا تھا کہ یہ اسمبلیوں میں آتے، ہم نے کہا تھا عمران خان قدم بڑھاؤ ہم تہمارے ساتھ ہیں۔
محسن نقوی کی تعیناتی پر بات کرتے ہوئے عون عباس کا کہنا تھا کہ محسن نقوی زرداری کا فرنٹ مین ہے، زرداری نے ہمارے 20 اراکین کو خریدنے کیلئے لاہور میں ڈیرے ڈالے تھے، اراکین کو خریدنے کیلئے فرنٹ مین محسن نقوی تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر آپ نےعوام کو برباد کرنا ہے تو اس سے غلط فیصلہ آپ نہیں کرسکتے، اگر یہ احمد چیمہ کو بھی لگا دیتے تو ہمیں قبول تھا۔
بطور نگراں وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی کی تقرری کے فیصلے پر ہونے والی تنقید پر رانا تنویر نے کہا کہ اگرالیکشن کمیشن ان کی طرف داری کرے تو ٹھیک ہے، اگر وہ میرٹ پر چلا جائے توان کے خلاف توپیں کھولتے ہیں، ہم کہتے تھے جس دن بیساکھیاں ہٹ گئیں یہ نہیں رہ سکتے۔
ان کا کہنا تھا کہ بزادر صاحب کیا تھے؟ وہ مٹی کے بت سے بھی آگے تھے، بزدار کو گوگی چلا رہی تھی۔
رانا تنویر نے کہا کہ یہ لوگ ڈیڈلاک بڑھا رہے ہیں تو ختم بھی یہی کرسکتے ہیں۔