کراچی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے نقیب اللہ محسود قتل کیس کا تحریری حکم نامہ جاری کردیا۔
نقیب اللہ محسود قتل کیس کا تحریری حکم نامہ 42 صفحات پر مشتمل ہے جس میں کہا گیا ہے کہ مقدمے میں شکوک و شہبات پائے گئے، اسلامی اور عالمی اصول کے تحت شکوک وشہبات کا فائدہ ملزم کے حق میں جاتا ہے،یہ اصول ہے کہ قاضی کی غلطی سے سزا دینے سے اس کی بریریت بہتر فیصلہ ہے۔
مزید پڑھیں: نقیب اللہ قتل کیس کا فیصلہ سنا دیا گیا، راؤ انوار بری
تحریری حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ عدالت کی نظر میں استغاثہ کیس ثابت نہیں کرسکی، عدالت نے راؤ انوار سمیت 18ملزمان کو بری کردیا،عدالت نے7مفرور ملزمان کے دائمی وارنٹ گرفتاری جاری کردیے،مفرور ملزمان میں امان اللہ مروت،گدا حسین،محسن عباس،صداقت حسین شاہ،راجہ شمیم مختار،رانا ریاض اور شعیب عرف شوٹر شامل ہیں۔
تحریری حکم نامے میں وکیل صفائی کے دلائل میں کہا گیا کہ استغاثہ کا مقدمہ ناقص شواہد پر مبنی ہے، استغاثہ کے مقدمہ میں شکوک وشہبات ہیں، شکوک وشہبات کا فائدہ ملزمان کے حق میں جاتا ہے جو دنیا کا اصول ہے، ملزمان کے خلاف براہ راست کوئی شواہد نہیں ہیں، ملزمان کے خلاف سی ڈی آر گواہی کے طور پر پیش کی گئی، راؤ انوار کو اس مقدمے میں پیشہ وارانہ عناد کی بنیاد پر پھنسایا گیا، کسی گواہ نے راؤ انوار کی شناخت نہیں کی۔
مزید پڑھیں: راؤ انوار کی بریت کا فیصلہ چیلنج کرنے کا اعلان
تحریری حکم میں مزید کہا گیا کہ تفتیشی افسر ڈاکٹر رضوان کے مطابق کسی بھی ملزم کے موبائل فون کی فرانزک نہیں کرائی گئی،ریکارڈ کے مطابق راؤ انوار کی لوکیشن وقوع کے وقت ملیر کینٹ تھی،لوکیشن جاننے کی تفصیل کے متعلق ان کمپنیوں سے رابط نہیں کیا گیا۔
مزید پڑھیں: نقیب اللہ قتل کیس میں راؤ انوار کی بریت پر عوام میں غم و غصہ
حکم نامے کے مطابق مقتول نقیب اللہ محسود سمیت دیگر کو سہراب گوٹھ ہوٹل سے اٹھانے سے متعلق چشم دید گواہوں کی سی ڈی آر موصول ہوئی،پولیس ٹیم نے بہاولپور جاکر مقتول محمد اسحاق کے بھائی ودیگر کے بیانات ریکارڈ کیے۔