امریکی خلائی ایجنسی ناسا نے رواں ماہ کے شروع میں رپورٹ کیا کہ ہبل اسپیس ٹیلی سکوپ نے ایک ستارے کو اپنے آخری لمحات میں بلیک ہول کا شکار بنتے ریکارڈ کیا ہے۔
ناسا کے مطابق بلیک ہول نے مرتے ہوئے ستارے کو اپنے اندر کھینچ لیا اور اس عمل میں ستارہ ”ڈونٹ“ کی شکل میں بلیک ہول کے گرد لپٹتا چلا گیا۔
یہ واقعہ گزشتہ سال مارچ میں پیش آیا تھا لیکن ناسا نے اس معلومات کو اس مہینے جاری کیا۔
رپورٹ میں ناسا نے ستارے کے نگلے جانے کے عمل کو بھی بیان کیا ہے۔
ناسا کے مطابق، جب ستارہ ایک بلیک ہول کے قریب سے گزرتا ہے تو بلیک ہول اسے اپنی کشش ثقل کے میدان میں کھینچ لیتا ہے۔
بلیک ہول کا پریشر ستارے کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیتا ہے اور اسے پھاڑ دیتا ہے۔
اس کے بعد ستارے کی باقیات بلیک ہول کے گرد ایک ڈونٹ کی شکل میں رنگ میں گھومتی ہیں اور بالآخر سیاہ تاریک مرکز میں کھو جاتی ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بلیک ہولز فطری طور پر خود ستاروں کا شکار نہیں کرتے، بلکہ وہ ایک جگہ پر رہتے ہیں جب تک کہ کوئی ستارہ خود ان کے قریب سے نہیں گزرتا۔
ہبل خلائی دوربین اس واقعے کو قریب سے عکس بند سے قاصر ہے۔
ناسا نے کہا کہ دوربین پورے عمل کو قریب سے پکڑنے میں ناکام رہی، کیونکہ جو ستارہ نگلا گیا تھا وہ 300 ملین نوری سال دور تھا۔
لیکن خلائی ایجنسی کے ماہرین فلکیات نے پھر بھی پھٹے ہوئے ستارے کی روشنی کا مطالعہ کرنے کا موقع حاصل کرلیا۔
ماہرین فلکیات اور ان کی مختلف دوربینوں کے ذریعے اب تک تقریباً 100 بلیک ہول کے واقعات کا پتہ لگایا جاچکا ہے۔