متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے کنوینئیر خالد مقبول صدیقی کا کہنا ہے کہ غلط مردم شماری کرنے والوں کو سزا تو ملی لیکن اس غلط مردم شماری کو صحیح نہیں کیا گیا۔
کراچی میں دوبارہ سے متحد ہونے والی ایم کیو ایم کے رہنماؤں نے پریس کانفرنس کی جس سے خطاب میں خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ مردم شماری میں 50 سال سے دھاندلی ہو رہی ہے۔
ایم کیو ایم کنوینئیر کا کہنا تھا کہ کراچی حیدرآباد میں سب سے زیادہ اربنائزیشن ہوئی اور اس کی آبادی کی رفتار کو سب سے کم دکھایا گیا، جس طرح کی حلقہ بندیاں کراچی حیدرآباد میں کی گئیں ویسی ہی میرپورخاص، سکھر، نوابشاہ میں بھی کی گئی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ، ہائیکورٹ، الیکشن کمیشن کسی نے نہیں کہا کہ آپ غلط کہہ رہے ہیں، ہمیں ہر جگہ کہا گیا کہ آپ غلط وقت پر آئے ہیں، غلط جگہ پر آئے ہیں، آپ کو پہلے یہاں جانا چاہئیے تھا وہاں جانا چاہئیے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارا کیس مضبوط تھا تو سپریم کورٹ کو ازخود نوٹس لینا چاہئیے تھا۔
خالد مقبول نے کہا کہ ہم نے انتخابات سے دستبردار ہوکر سازش کو ناکام بنا دیا۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنے ہی علاقوں میں مصروف رکھا جاتا ہے تاکہ ہماری آواز سندھ کے شہری علاقوں سے نکل کر دیہی علاقوں میں نہ پہنچ سکے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ کچھ لوگ عوام دشمن ہوتے ہیں اور کچھ نظام دشمن، نظام دشمن لوگوں کے خلاف آپریشن ہوتے ہیں اور الحمداللہ جو آج آپ کے سامنے بیٹھے ہیں اس بوسیدہ، گلے سڑھے جاگیردارانہ نظام کو جمہوریت ماننے سے انکار کرتے ہیں۔
خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ ہم نے فیصلہ کیا ہے ایوانوں، عدالتوں ، سیاسی میدانوں میں اپنی آواز بلند کرچکے ہیں، حجت تمام کرچکے ہیں، اب واحد راستہ ہے کہ جس عوام کیلئے لڑ رہے ہیں اسے ساتھ لے کر سڑکوں پر اس جدوجہد کو آخرے مرحلے میں داخل کیا جائے۔ ہم نے اپنا پروگرام ترتیب دے دیا ہے جو آنے والے وقتوں میں آپ کے سامنے پیش کریں گے۔
پریس کانفرنس سے خطاب میں مصطفیٰ کمال کا کہنا تھا کہ انتخابات کے تین مراحل ہیں، ایک الیکشن سے پہلے، ایک الیکشن کے دوران اور ایک الیکشن کے بعد کا مرحلہ۔
انہوں نے کہا کہ الیکشن سے پہلے لوگوں کو گنا جاتا ہے، پھر حلقہ بندیاں ہوتی ہیں۔
کراچی اور حیدرآباد کے لوگوں کو گنا گیا تو پورا ہی نہیں گنا گیا، کراچی کی تین کروڑ کی آبادی کو ڈیڑھ کروڑ بتا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایکشن کے تینوں مراحل میں دھاندلی ہوئی ہے۔
مصطفیٰ کمال نے طنزیہ کہا کہ صوبائی اور وفاق حکومت ہماری ہو نہیں سکتی، لے دے کر کراچی اور حیدرآباد میں سڑکوں گٹروں اور پانی کا نظام ہمارے پاس آتا تھا، اب وہ بھی ہم سے لینے کیلئے جیریمینڈرنگ کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے پاکستان بنایا آج پاکستان بچا رہے ہیں، اس شہر کے نوجوانوں نے اپنے ہاتھوں سے ہتھیار جمع کرائے، کل جب امن تباہ ہوگا، غیر آئینی بات ہوگی، تو سب بندوقیں اٹھا کر آجائیں گے گرفتار کرنے لاپتا کرنے کیلئے۔
انہوں نے کہا کہ شہری علاقوں کے ساتھ آج جو پیپلز پارٹی کا سلوک ہے اس میں اور مقبوضہ کشمیر میں نریندر مودی کے سلوک میں کیا فرق ہے، وہ بھی یہی کررہا ہے کہ اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کی کوشش کررہا ہے۔
مصطفیٰ کمال نے کہا کہ ہم خاموش نہیں بیٹھے گے، ہم امن کے ساتھ، آئین کے اندر رہتے ہوئے اپنا حق لینا جانتے ہیں، پاکستان میں دھرنوں کا رواج ہے نا؟ ابھی گیم ختم نہیں ہوا شروع ہوا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارے تو خون میں پاکستان ہے، ہم نے اس پاکستان کو بنانے اور چلانے کیلئے قربانیاں دی ہیں لیکن اس کے باوجود ہمارے ساتھ یہ سلوک کیا جارہا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ میں سمجھتا ہوں پاکستان کو چلانے والی قوتیں اس مسئلے کو توجہ دیں گی اور رکوائیں گی، الیکشن ہو گئے کوئی مسئلہ نہیں، ہمارا مطالبہ ہے کہ کراچی کی 53 یونین کونسلز جن کا لیٹر 10 ون اے جاری ہو چکا ہے، وہ شامل کی جائیں، اس سے الیکشن کو کوئی فرق نہیں پڑتا، اگر وہ یونین کونسل شامل ہوگئیں ہم الیکشن سے باہر رہ کر بھی الیکشن جیت جائیں گے۔
اس موقع پر وسیم اختر نے کہا کہ حیدرآباد اور کراچی دونوں شہروں نے ایم کیو ایم کے بائیکاٹ کے فیصلے پر لبیک کہا ہے، دونوں جماعتوں نے قبول کیا کہ حلقہ بندیاں غلط ہوئی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر پیپلز پارٹی سمجھتی ہے وہ دیہی علاقوں کی سیٹیں شہری علاقوں میں ڈال کر کامیاب ہوگئی ہے تو یہ اس کی غلط فہمی ہے۔ کراچی، حیدرآباد، میرپور خاص اور سکھر کی آنے والی نسلیں پیپلز پارٹی کو ووٹ نہیں ڈالیں گی کیونکہ 1971 کے بعد سے ان کی صورت حال سامنے ہے۔
خالد مقبول مقبول صدیقی کا مزید کہنا تھا کہ تاریخ گواہ ہے جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی نے جانتے ہوئے کہ پری پول رگنگ ہوئی ہے اپنی خاطر الیکشن لڑا اور ہم نے آپ سب کی خاطر الیکشن سے دستبرداری کا اعلان کیا۔
انہوں نے کہا کہ یہ اعوان اور اقتدار ہماری ٹھوکروں پر رہا ہے، اگر ہم نے آپ کو حیدرآباد اور کراچی کی خیرات دے بھی دی ہے تو اس سے پہلے وقت گزر جائے آپ 73 یا 53 یوسیز کو کراچی اور حیدرآباد میں شامل کریں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ آپ نے ان دوشہروں پر قبضہ کرنے کا جو پلان بنایا ہے اس کو لوٹنے کی خاطر بنایا ہے، کہ کچرے کا پیسہ، نکاسی آب، فراہمی آب کا پیسہ اور گلیوں کا پیسہ بھی لوٹ کر لے جا سکیں، کیوںکہ آپ کو پتا ہے آپ کا اقتدار اب آخری مرحلے میں داخل ہوچکا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اگر ہم حکومت بنانے کے مرحلے میں شامل نہ ہوں تو یہ حکومت ہی نہیں جموریت بھی نہ بچے، اس جمہوریت کو بچانا ہم اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں، وزارتوں میں رہنا ہماری نہیں حکومت کی ضرورت ہے، لیکن ہم دوسروں کی ضرورت پوری کرتے ہوئے اپنی قوم کے حقوق پر سمجھوتہ نہیں کریں گے۔