کراچی ڈویژن کے سات اضلاع میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کو ایک ہفتہ گزرنے کے باوجود متعدد حلقوں میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی جاری رہنے کے باعث حتمی نتائج کا اعلان نہیں ہو سکا۔
شہر کی تین بڑی جماعتوں یعنی پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی)، جماعت اسلامی (جے آئی) اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) میں سے کسی نے بھی شہر پر حکمرانی کے لیے بنائے گئے اتحاد پر کامیاب مذاکرات نہیں کیے۔
حالانکہ اتحاد ناگزیر ہے کیونکہ کوئی بھی پارٹی سادہ اکثریت یا کراچی کی 50 فیصد سے زیادہ یوسی جیتنے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔
گزشتہ اتوار کراچی کے سات اضلاع کی 246 یونین کمیٹیوں (یوسیز) میں سے 235 میں پولنگ ہوئی۔ یوسی چیئرمینوں کے انتخاب کے لیے لاکھوں ووٹ ڈالے گئے جو سٹی میئر کے انتخاب کے لیے الیکٹوریٹ بنائیں گے۔
ووٹرز نے نائب یوسی چیئرمینوں کا انتخاب بھی کیا جو کراچی کے 25 ٹاؤنز میں ٹاؤن ناظمین کا انتخاب کریں گے۔
اس عمل کے بارے میں یہاں مزید پڑھیں: آپ کا ووٹ کراچی کے اگلے میئر کا انتخاب کیسے کرتا ہے۔
اتوار کی شام پولنگ ختم ہونے کے 28 گھنٹے بعد، الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے منگل کی رات 235 یوسیز کے مجموعی نتائج جاری کیے۔
تاہم، سیاسی جماعتوں نے کئی حلقوں میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی کا مطالبہ کیا اور پی پی پی نے جماعت اسلامی کے ہاتھوں دو یوسی کھو دیں۔
مجموعی نتائج میں اس معمولی تبدیلی کے بعد پارٹی پوزیشن کچھ یوں رہی۔
Party | Seats |
---|---|
PPP | 140 |
JI | 135 |
PTI | 60 |
PMLN | 9 |
JUI | 4 |
TLP | 3 |
MQM-H | 1 |
IND | 4 |
آج نیوز کے رپورٹر سہیل رب خان کا کہنا ہے کہ منگل سے، شہر کی ہر دوسری یو سی میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی ہو رہی ہے لیکن نتائج میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔
تاہم تینوں سرکردہ جماعتوں کے سیاسی کارکنوں نے دوبارہ گنتی کے عمل کے دوران زیادہ نشستیں جیتنے کا دعویٰ کیا ہے۔ لیکن ای سی پی نے اس کی تصدیق نہیں کی۔
کچھ امیدواروں کے کاغذات نامزدگی جمع کرانے کے بعد انتقال کرجانے پر گیارہ نشستوں پر انتخاب بھی ملتوی کر دیا گیا تھا۔
دوسو چھیالیس براہ راست نشستوں کے علاوہ خواتین، اقلیتوں، نوجوانوں، مزدوروں اور معذور افراد کے لیے 121 نشستیں مخصوص ہیں۔ یہ مخصوص نشستیں سیاسی جماعتوں میں براہ راست الیکشن میں جیتی گئی نشستوں کے تناسب سے تقسیم کی جائیں گی۔
نیچے دیا گیا ڈونٹ مخصوص نشستیں شامل کرنے کے بعد پارٹی کی حتمی پوزیشن کو ظاہر کرتا ہے۔
سب سے زیادہ نشستیں جیتنے والی پیپلز پارٹی نے جماعت اسلامی سے اتحاد کے لیے بات چیت شروع کی ہوئی ہے۔
ذرائع نے آج نیوز کے رپورٹر قاضی آصف کو بتایا کہ پی پی پی شہر میں کنٹرول کے بدلے سٹی میئر شپ چھوڑنے کے لیے تیار ہے۔
تاہم پیپلز پارٹی کے رہنما سعید غنی کے جماعت اسلامی کے حافظ نعیم الرحمان سے ملنے جانے کے باوجود مذاکرات میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔
چونکہ ای سی پی نے تفصیلی نتائج کا اعلان نہیں کیا، اس لئے ٹاؤنز میں پارٹی پوزیشنز بھی ابہام کا شکار ہیں۔
جماعت اسلامی نے پی ٹی آئی کے ساتھ بھی مذاکرات کیے ہیں اور علی زیدی نے ہفتہ کو ھافظ نعیم الرحمان سے ملاقات بھی کی۔
لیکن جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی بھی متحد نہ ہوسکے۔
ذرائع کا دعویٰ ہے کہ پی ٹی آئی کا خیال ہے اس کی نشستیں جماعت اسلامی اور پی پی کو دی گئی ہیں۔
حافظ نعیم کے ساتھ مشترکہ پریس ٹاک میں پی ٹی آئی کے علی زیدی نے اعلان کیا کہ دونوں جماعتوں نے ”چوری شدہ مینڈیٹ کو واپس لینے“ کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے۔
علی زیدی نے کہا کہ پی ٹی آئی کے 40 سے زائد حلقے چرائے گئے۔
دوسری جانب حافظ نعیم نے کہا کہ جماعت اسلامی میئر شپ پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گی اور وہ میئر کا انتخاب جیتنے کی پوزیشن میں ہے۔
حافظ نعیم نے اس خیال کو مسترد کیا کہ جماعت اسلامی کو پی پی سے ہاتھ ملانا چاہئیے، کیونکہ اس سےجماعت اسلامی کے میئر کو صوبائی حکومت سے فنڈز حاصل کرنے میں مدد ملے گی۔
انہوں نے کہا کہ یہ شہر کا پیسہ تھا جسے صوبائی حکومت کنٹرول کرتی ہے۔
علی زیدی نے دعویٰ کیا کہ پی ٹی آئی سندھ کی اگلی حکومت بنائے گی اور شہر کے لیے فنڈز منظور کرے گی۔