برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی نے بھارتی وزیراعظم نریندرمودی پردستاویزی فلم ’انڈیا: دی مودی کوئسچین (India: The Modi Question) میں انہیں گجرات فسادار کا ذمہ دارقرار دیا ہے۔
بھارتی وزیراعظم نریندرمودی کا ایک اہم حوالہ بطور وزیراعلیٰ گجرات میں مسلم کش فسادات ہے، اس دستاویزی فلم میں بی بی سی نے نریندر مودی اور ملک کی مسلم اقلیت کے درمیان کشیدگی کے ساتھ ساتھ بڑے پیمانے پر فرقہ وارانہ تشدد میں مودی کے کردار کے بارے میں ”تحقیقاتی دعوؤں“ کوبھی مدنظر رکھا ہے۔
فروری اور مارچ 2002 میں ہونے والے گجرات فسادات میں ایک ہزار سے زائد لوگ مارے گئے تھے، اس کا آغاز 27 فروری 2002 کو گودھرا میں کار سیوکوں (مذہبی رضاکار) کو لے جانے والی ٹرین جلانے کے بعد ہوا تھا جس میں 59 افراد ہلاک ہوئے۔ 2005 میں بھارتی پارلیمنٹ کو بتایا گیا کہ بعد ازاں پھوٹنے والے فسادات کے نتیجے میں 790 مسلمان اور 254 ہندو مارے گئے، 223 مزید افراد لاپتہ اور 2500 زخمی ہوئے۔
دو حصوں پر مشتمل دستاویزی فلم کی پہلی قسط 17 جنوری کو بی بی سی ٹو پر نشر کی گئی۔ یہ دراصل برطانوی کی حکومت کی ایک رپورٹ ہے جسےاب تک کبھی شائع یا ظاہر نہیں کیا گیا تھا لیکن اب تفصیل سے دکھایا گیا ہے۔
دستاویزی فلم میں رپورٹ کے متن کی تصاویر کی ایک سیریزاور ایک بیان ہے جس کے مطابق تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ”نریندر مودی براہ راست ذمہ دار ہیں“۔ اس وقت پیش آنے والے واقعات کا بطور ”تشدد کی منظم مہم“ حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ مسلمانوں کی نسل کشی کے تمام ثبوت ہیں۔
یہ رپورٹ برطانوی حکومت کی طرف سے قائم کیے گئے تحقیقاتی سیٹ اپ کا نتیجہ ہے، جو گجرات میں ہونے والے واقعات سے ”خوف زدہ“ تھی۔
سابق خارجہ سیکریٹری جیک سٹرا (2001-2006) کی جانب سے اس دستاویزی فلم سے متعلق آن کیمرہ کہا گیا ہے کہ ،’ ایک ٹیم نے گجرات جاکر خود معلوم کیا کہ وہاں کیا ہوا تھا، انہوں نے ایک بہت مکمل رپورٹ لی، میں نے خود بھی ذاتی دلچسپی لی کیونکہ بھارت ایک اہم ملک ہے جس کے ساتھ ہمارے تعلقات ہیں اس لیے ہمیں معاملے کو بہت احتیاط سے دیکھنا تھا’۔
انکوائری ٹیم کی جانب سے برطانیہ کی حکومت کو دی گئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ”تشدد کی حد اطلاع سے کہیں زیادہ تھی“ اور ”مسلم خواتین کے ساتھ بڑے پیمانے پر اور منظم طریقے سے زیادتی“ کی گئی کیونکہ تشدد کی سیاسی پشت پناہی کی جارہی تھی۔
رپورٹ کے مطابق ، ”فسادات کا مقصد ہندو اکثریتی علاقوں کو مسلمانوں سے پاک کرنا تھا۔ یہ حکم بلاشبہ مودی کی طرف سے آیا“۔
دستاویزی فلم میں اپنا نام نہ ظاہر کرنے والے ایک سابق برطانوی سفارت کار کا کہنا ہے کہ، ”تشدد کے دوران کم از کم 2000 افراد کو قتل کیا گیا جہاں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔ ہم نے اسے قتل عام کے طور پربیان کیا۔ یہ ایک دانستہ،اور سیاسی کوشش تھی جس میں مسلم کمیونٹی کو نشانہ بنایا گیا۔“
دستاویزی فلم میں راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) سے الحاق شدہ وشوا ہندو پریشاد (وی ایچ پی) کا ذکر بھی ملتا ہے، سابق سفارت کار کے مطابق، ”یہ تشدد ایک انتہا پسند ہندو قوم پرست گروپ VHP کی طرف سے بڑے پیمانے پرکیا گیا تھا“ ۔
سابق برطانوی خارجہ سکریٹری اسٹرا نے بی بی سی کو بتایا کہ ”یہ انتہائی سنگین دعوے تھے کہ وزیر اعلیٰ مودی نے پولیس کو پیچھے ہٹانے اور ہندوانتہا پسندوں کی حوصلہ افزائی کرنے میں کافی فعال کردار ادا کیا۔“ ۔
انہوں نے اعتراف کیا کہ بطوروزیران کے پاس ”کافی محدود“ اختیارات رہ گئے تھے کیونکہ برطانیہ بھارت کے ساتھ کبھی بھی سفارتی تعلقات نہیں توڑنے والا تھا لیکن ظاہر ہے کہ یہ اس کی ساکھ پر داغ ہے۔
گجرات فسادات کے بعد برطانوی حکومت نے خونریزی کو ختم کرنے میں ناکامی کا دعویٰ کرنے پرمودی کا سفارتی بائیکاٹ کیا تھا جو اکتوبر 2012 میں ختم ہوا۔ بی بی سی کے مطابق اسی دوران یورپی یونین کی جانب سے بھی ایک انکوائری قائم کی گئی جس نے اپنی تحقیقات میں کہا کہ وزراء نے تشدد میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اورپولیس کے سینیئرافسران کومداخلت نہ کرنے کی ہدایت کی گئی تھی۔
اس حوالے سے نریندر مودی کا انٹرویوکرنے والی بی بی سی کی جل میک گیورنگ نے کہا کہ، ”نریندرمودی زیادہ میڈیا فرینڈلی نہیں ہیں اس لیے ہمارے ساتھ بیٹھ کر انٹرویو کرنے پرراضی کرنا ایک کریڈٹ (Scoop) کی طرح تھا۔ جل نے مودی کو ایک بہت ہی کرشماتی ، بہت طاقتور اور کافی خطرناک شخصیت قراردیا۔“
بار بار ہونے والے تشدد اور گجرات میں ہنگامہ آرائی کے بارے میں کیے جانے والے سوالات کے جواب میں مودی کو کہتے دکھایا گیا ہے، “ میرے خیال میں آپ کو پہلے اپنی معلومات کو درست کرنا ہوگا۔ ریاست بہت پرامن ہے“۔
ریاست میں لا اینڈ آرڈر سے متعلق مبینہ طور پر غلط اقدامات کے بارے میں مزید سوالات پر مودی نے کہاکہ، ”یہ بالکل گمراہ کن معلومات ہے اور میں آپ کے تجزیہ سے متفق نہیں ہوں۔ تم انگریز ہمیں انسانی حقوق کی تبلیغ نہ کرو۔“
یہ سوال پوچھے جانے پرکہ کیا اس سارے میں کوئی ایسی چیز تھی جسے آپ مختلف طریقے سے کرنا چاہیں گے تو مودی کا کہنا تھا کہ ، “”ایک ایسا شعبہ جہاں میں مختلف طریقے سے کام کرسکتا تھا، میڈیا کو کیسے ہینڈل کرنا ہے“۔
دستاویزی فلم میں برطانیہ کی انکوائری رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ ’’مودی کے اقتدار میں رہنے تک مفاہمت ناممکن ہو گی۔‘‘
بی بی سی ٹو کی یہ دستاویزی فلم فی الحال بھارت میں دیکھنے کے لیے دستیاب نہیں ہے۔
بھارتی سپریم کورٹ نے جون 2022 میں قراردیا تھا کہ ”گجرات فسادات کے پیچھے کوئی بڑی سازش نہیں تھی“ ۔ سپریم کورٹ نے قتل ہونے والے سابق ایم پی احسان جعفری کی اہلیہ ذکیہ جعفری کی دائرکردہ درخواست مسترد کردی تھی جو خصوصی تحقیقاتی ٹیم (ایس آئی ٹی) کے ذریعہ مودی کو دی گئی کلین چٹ کے خلاف تھی۔
بھارتی سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں یہ بھی کہا تھا کہ ، ”اعلیٰ ترین سطح پربڑی مجرمانہ سازش کا الزام تاش کے گھر کی طرح منہدم ہوگیا“۔
دوسری جانب بھارت نے اس ڈاکیومینٹری پراپنے شدید تحفظات کااظہار کرتے ہوئے اسے ’پروپیگنڈا‘ قراردے کرمستردکیا ہے تاہم برطانوی نشریاتی ادارہ اپنے موقف پرقائم ہے۔
بی بی سی کی ویب سائٹ پر واقعہ کی تفصیل میں کہا گیا ہےکہ، “ نریندر مودی کی وزارت عظمیٰ بھارتی مسلم آبادی کی جانب سے ان کی حکومت کے رویے کے بارے میں مسلسل الزامات کی زد میں ہے۔ یہ سیریز ان الزامات کے پیچھے سچائی کی چھان بین کرتی ہے اورجب وہاں کی سب سے بڑی مذہبی اقلیت کی بات آتی ہے تو مودی کی سیاست کے بارے میں جاننے کے لیے اُن کی پس پردہ کہانی کا جائزہ لیتی ہے۔“