سردی کا موسم ہے اور موسم میں لوگ عموماً مچھلی کھانے کیلئے جوق در جوق دکانوں کا رخ کرتے ہیں، لیکن وہ یہ نہیں جانتے کہ جو مچھلی وہ فائدہ مند سمجھ کر کھا رہے ہیں وہ ان کیلئے کتنی مضر ہے۔
نئی تحقیق میں پایا گیا ہے کہ کسی بھی دریا یا جھیل سے پکڑی گئی میٹھے پانی کی ایک مچھلی کھانا ایک ماہ تک زہریلے ”فارایور کیمیکلز“ سے آلودہ پانی پینے کے مترادف ہے۔
غیر مرئی کیمیکل کو ”پَر اور پولی فلورو الکائل“ (پی ایف اے ایس) کہا جاتا ہے جو 1940 کی دہائی میں پانی اور گرمی کے خلاف مزاحمت کے لیے تیار کیا گیا تھا، اب یہ کیمیکل نان اسٹک پین، ٹیکسٹائل، آگ بجھانے والے فوم اور فوڈ پیکنگ جیسی اشیاء میں استعمال ہوتے ہیں۔
لیکن پی ایف اے ایس ماد ”ناقابلِ تباہ“ ہونے کی وجہ سے وقت کے ساتھ ساتھ ہوا، مٹی، جھیلوں، دریاؤں، خوراک، پینے کے پانی اور یہاں تک کہ ہمارے جسموں کا حصہ بن چکے ہیں۔
پی ایف اے ایس کے لیے سخت ضابطے بنانے کے مطالبات ہو رہے ہیں، جن کا تعلق صحت کے سنگین مسائل کی ایک رینج سے ہے، ان نقصانات میں جگر کو نقصان، ہائی کولیسٹرول، مدافعتی ردعمل میں کمی اور کئی قسم کے کینسر شامل ہیں۔
مقامی طور پر پکڑی جانے والی مچھلیوں میں پی ایف اے ایس آلودگی کا پتہ لگانے کے لیے واشنگٹن میں محققین کی ایک ٹیم نے 2013 اور 2015 کے درمیان امریکہ کے دریاؤں اور جھیلوں سے پکڑی گئی مچھلیوں کے 500 سے زیادہ نمونوں کا تجزیہ کیا۔
جرنل انوائرمینٹل ریسرچ میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق مچھلی میں پی ایف اے ایس کی اوسط سطح 9500 نینوگرام فی کلو گرام تھی۔
ان میں سے تقریباً تین چوتھائی ”فارایورکیمیکلز“ تھے، جو پی ایف اے ایس کی ہزاروں اقسام میں سے ایک سب سے عام اور خطرناک ہے۔
محققین نے حساب لگایا کہ صرف ایک میٹھے پانی کی مچھلی کھانا ایک ماہ کیلئے پی ایف او ایس سے آلودہ پانی پینے کے برابر ہے۔
تحقیق میں کہا گیا ہے کہ میٹھے پانی کی مچھلیوں میں پی ایف اے ایس کی سطح تجارتی طور پر فروخت ہونے والی مچھلیوں سے 278 گنا زیادہ تھی۔
تحقیق کی قیادت کرنے والے غیر منافع بخش ماحولیاتی ورکنگ گروپ کے ایک سینئر سائنس دان ڈیوڈ اینڈریوز نے ایجنسی فرانس پریس کو بتایا کہ وہ مچھلیاں پکڑتے ہوئے پلے بڑھے ہیں۔
مطالعہ کے مصنفین میں سے ایک اینڈریوز کہتے ہیں کہ، ”میں پی ایف اے ایس آلودگی کے بارے میں سوچے بغیر مچھلی کو نہیں دیکھ سکتا۔“
انہوں نے مزید کہا کہ یہ نتائج ”خاص طور پر پسماندہ کمیونٹیز پر پڑنے والے اثرات سے متعلق تھے جو مچھلی کو پروٹین کے ذریعہ سمجھتے ہیں، یا سماجی و ثقافتی وجوہات کی بناء پر استعمال کرتے ہیں۔“
برطانیہ کی لیورپول جان مورز یونیورسٹی کے ماحولیاتی آلودگی کے محقق پیٹرک برن کہتے ہیں کہ پی ایف اے ایس ”شاید 21ویں صدی میں انسانی نسل کو درپیش سب سے بڑا کیمیائی خطرہ ہے“۔
انہوں نے اے ایف پی کو بتایا، ”یہ مطالعہ اہم ہے، کیونکہ یہ پی ایف اے ایس کی براہ راست مچھلی سے انسانوں میں منتقلی کا پہلا ثبوت فراہم کرتا ہے۔“