Aaj Logo

شائع 17 جنوری 2023 04:57pm

ایم کیو ایم کا الیکشن بائیکاٹ کے بعد عدالتی جنگ لڑنے کا فیصلہ

متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان نے الیکشن کے بائیکاٹ کے بعد عدالتی جنگ لڑنے کا فیصلہ کرلیا۔

ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما اور سابق مئیر کراچی وسیم اختر کا کہنا ہے کہ کراچی کے عوام نے ہمارے مؤقف کی تائید کی ہے، ایم کیو ایم نے کراچی کی حلقہ بندیوں پر اعتراض اٹھایا تھا۔

ایم کیو ایم کے مرکز بہادر آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وسیم اختر نے کہا کہ الیکشن کمیشن صاف اور شفاف الیکشن کرانے کا پابند ہے، لیکن الیکشن کمیشن نے قانون کی دھجیاں اڑادی ہیں۔

وسیم اختر نے کہا کہ ایم کیو ایم نے گزشتہ الیکشن میں کراچی سے 11 لاکھ سے زائد ووٹ لیے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم چاہتے ہیں الیکشن سے قبل حلقہ بندیاں درست ہوں، ہم نے ہر فورم پر آواز بلند کی۔

وسیم اختر نے کہا کہ کراچی اور حیدرآباد میں الیکشن کمیشن نے جس طرح الیکشن کرایا وہ سیاہ دھبہ رہے گا، گلیوں میں لوگوں کے پاس بیلٹ پیپر اور پیلٹ باکسز تھے۔ ٹرن آؤٹ بڑھانے کیلئے آپ نے رزلٹ میں تاخیر کی، پیپلز پارٹی سے پری پول رگنگ کی، الیکشن کمیشن نے پوسٹ رگنگ کی۔

ان کا کہنا تھا کہ باون یوسیز پر پیپلز پارٹی نے اتفاق کیا تھا کہ وہ اسے ٹھیک کرنے کیلئے تیار ہیں، اس کے باوجود اس پر آپ نے شب خون مارا۔ کراچی اور حیدرآباد کے لوگوں نے آپ کو ایک بار پھر مسترد کیا ہے، آنے والی نسلیں آپ کو ووٹ نہیں ڈالیں گی کیونکہ آپ کا کردار ایسا رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے نیک نیتی سے معاہدہ کیا تھا، آصف صاحب نے کہا تھا کہ میں نہیں چاہتا بلاول کو میں لڑائی جھگڑے میں چھوڑ کر اس دنیا سے جاؤں۔

وسیم اختر نے بتایا کہ 2015 میں ایم کیو ایم کا 11 لاکھ 83 ہزار، پی پی کا 1 لاکھ 86 ہزار اور جماعت کا 1 لاکھ 46 ہزار ووٹ تھا، تب 98 لاکھ آبادی تھی۔ اب 2023 میں اتنی دھاندلی کے بعد پی پی کو 2 لاکھ 82 ہزار، جماعت اسلامی کو 3 لاکھ 20 ہزار ، پی ٹی آئی کو 2 لاکھ 70 ہزار ووٹ پڑا۔ جبکہ آبادی ایک کروڑ ساٹھ لاکھ ہے۔ آپ فرق دیکھیں کہ اتنی کوششوں کے بعد کراچی اور حیدرآباد نے آپ کو مسترد کیا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم نے جماعت اسلامی کو سمجھانے کی کوشش کی کہ پہلے حلقہ بندیاں ٹھیک کروالیں، لیکن انہیں پتا نہیں کس چیز کی جلدی تھی۔

انہوں نے اعلان کیا کہ ہم اپنی حلقہ بندیوں کی پٹیشن پر پھر سپریم کورٹ سے رجوع کریں گے۔

ایم کیو ایم رہنما کا مزید کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن ناکام ہوا ہے اور پیپلز پارٹی کا چہرہ عیاں ہوا ہے۔

انہوں نے سوال اٹھایا کہ چودہ سالوں میں 1200 ارب کہاں لگ رہا ہے، کرپشن کا بازار گرم ہے، لوکل گورنمنٹ کی چھوٹی کھڑکی کا بجٹ بھی اپنے پاس رکھ لیا، اب جشن منایا جائے گا کہ تھوڑا بجٹ جو سندھ گورنمنٹ کو ملتا تھا وہ بھی جیب میں آگیا۔

انہوں نے الیکشن میشن کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں آپ کے تیور سمجھ آگئے تھے اور آج دونوں شہروں کے عوام کو آپ کو چہرہ نظر آگیا۔ میں سپریم کورٹ کو کہتا ہوں یہی الیکشن کمیشن 2023 کا الیکشن کرائے گا، خدا کا واسطہ ہے الیکشن کمیشن میں کوئی کمپیٹنٹ ٹیم تعینات کی جائے۔

ایک سوال کے جواب میں وسیم اختر نے کہا کہ ہمارے پاس جو آپشن ہیں انہیں ہی ہم نے استعمال کیا، ہم نے مسائل کے حل کیلئے پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی سے اتحاد کیا۔ انشاءاللہ اب موقع ملے گا تو فیصلے اب اس طرح سے نہیں ہوں گے، ان میں سے کوئی بھی اس صوبے اور شہروں کے خیرخواہ نہیں ہوں گے۔

علی زیدی کے الزامات پر ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے لوگ سیاست سے کنارہ کرلیں تو بہتر ہے۔

Read Comments