ویسے تو توہم پرستی ایک عالمی مسئلہ ہے لیکن توہم پرستوں کی ایک بڑی تعداد ماضی کے برصغیر اور آج کے بھارت، پاکستان اور بنگلہ دیش میں پائی جاتی ہے۔
توہم پرستی خوف یا جہالت کی وجہ سے غیر منطقی عقائد پر یقین رکھنے کو کہتے ہیں اور ایسے عقائد رکھنے والے کو توہم پرست کہا جاتا ہے۔
پاکستان کی بات کریں تو ناخواندگی اور تعلیم کی کمی کی وجہ سے یہاں توہم پرستوں کی بھرمار ہے، جن کی کم عقلی یا معصومیت کا فائدہ کچھ فراڈ بھی اٹھاتے ہیں۔
آپ نے دیواروں پر اکثر ان میں سے کئی کے اشتہارات بھی دیکھیں ہوں گے، جن میں قابلِ ذکر جنید بنگالی اور اماں بنگالن ہیں۔
لیکن اگر آپ اندرون سندھ یا اندرونِ پنجاب کا سفر کریں، تو وہاں آپ کو کئی ایسے پیر یا بابے ملیں گے جن کا دین سے دور دور تک کوئی واسطہ نہ ہوگا، لیکن لوگ ان سے منتیں اور مرادیں مانگنے کیلئے قطار میں کھڑے نظر آئیں گے۔
ان میں بھی کچھ قابلِ زکر لوٹے والی سرکار، جوؤں والی سرکار، کھمبے والی سرکار، زندہ پیر، ننگے بابا، اینٹ پیر، شادی شہید سرکار اور دیگر کئی شامل ہیں۔
لیکن مارکیٹ میں ایک نئے پیر ”شلوار شاہ“ لانچ کئے گئے ہیں۔
پیر شلوار شاہ کی درگاہ کہیں یا آستانہ معلوم نہیں، کہ کہیں توہین نہ ہوجائے، لیکن عمارت نوابشاہ، سانگھڑ روڈ پر ملے گی۔
آپ دور سے ہی اس پر لٹکی بے شمار شلواریں دیکھ کر پہچان سکتے ہیں۔
یہاں اگر آپ کو اپنی مراد یا منت ماننی ہے تو آپ کو اپنی شلوار یہاں لٹکانی ہوگی، شرط یہ ہے کہ ساتھ دوسری شلوار بھی نہیں لانی۔
دنیا محنت اور عقل سے ترقی کرتی جارہی ہے اور پاکستانی شارٹ کٹ کے چکر میں بابوں کے در پر اپنی دنیا اور آخرت دونوں برباد کر رہے ہیں۔