ملک میں گزشتہ کئی مہینوں سے معاشی بدحالی کی بازگشت ہے، کئی سیاست دان اور ماہرین معاشیات اس بدحالی کو آئی ایم اور غیرملکی قرضوں سے جوڑ رہے ہیں، اس بدترین معاشی صورتحال سے نکلنے کیلئے حکومت آئی ایم ایف سے امید لگائے بیٹھی ہے، اور آئی ایم ایف نے مدد کی یقین دہانی بھی کرائی ہے، لیکن اس مدد کے بدلے میں ایک ایسا بجٹ تیار کیا گیا ہے، جو عوام کو مبینہ طور پر خودکشی پر مجبور کردے گا۔
قومی اسمبلی میں قائد حزبِ اختلاف اور پاکستان تحریک انصاف کے سیکریٹری جنرل عمر ایوب کا کہنا ہے کہ یہ بجٹ ’اکنامک ہٹ مین نے تیار کیا ہے‘۔
”اکنامک ہٹ مین؟“ آج کی قومی اسمبلی کی تقریر میں یہ اصطلاح سنتے ہی دماغ کے کسی کونے میں ایک چنگاری سی جلی اور جان پرکنز کا چہرہ لمحہ بھر میں آنکھوں کے سامنے آکر گزر گیا۔
جان پرکنز ایک امریکی مصنف ہیں، جنہوں نے اپنی مشہورِ زمانہ کتاب ”Confessions of an Economic Hit Man“ (معاشی قاتل کے اعتراف) میں تیسری دنیا کے ممالک کی اقتصادی نوآبادیات کے عمل میں ظالمانہ امریکی کردار کو بیان کیا ہے۔
جان نے کتاب میں بتایا کہ امریکہ اور سی آئی اے کس طرح کارپوریشنوں، بینکوں کے زریعے غریب ممالک کو اپنے قبضے میں کرتا ہے۔
2016 کی ایک ٹیڈ ٹاک میں جان پرکنز نے کئی اہم انکشافات کئے، جن سے ملتے جلتے کئی واقعات ہم بھی دیکھ چکے ہیں، کہاں؟ آپ خود سمجھ دار ہیں۔
جان پرکنز بتاتے ہیں کہ انہوں نے امریکی خفیہ ایجنسی (سی آئی اے) کی اپنی ویب سائٹ پر جاری کی گئی کچھ معلومات پڑھیں، جن میں اعتراف کیا گیا ہے کہ امریکی حکومت اور سی آئی اے ایران کے سابق وزیراعظم محمد مصدق، چلی کے صدر آلیانڈے، گواٹے مالا کے آربینز، ویتنام کے دیام اور کانگو کے لومومبا سمیت کئی حکمرانوں کی حکومتوں کا تختہ اُلٹنے یا ان کے سربراہان کے قتل میں ملوث رہی ہے۔
پرکنز کہتے ہیں، ”چلی کے صدر آلیانڈے کی بات کروں تو، ان کی جگہ ایک انتہائی ظالم آمر جنرل پنوشے کو بٹھایا گیا جو آپریشن کونڈور کا بڑا حامی تھا۔“
آپریشن کونڈور کیا تھا؟ وہ آپ کو آگے بتاتے ہیں۔
”پنوشے کی نگرانی میں ہزاروں لوگوں کا قتلِ عام کیا گیا اور سابق امریکی سیکریٹری خارجہ ہینری کیسینجر نے سرمایہ دارانہ نظام کے مضبوط محافظ ہونے پر پونشے کو کافی سراہا۔“
جان پرکنز اپنے ماضی کے حوالے سے بتاتے ہیں کہ ”میں ایران کے شاہ، انڈونیشیا، ایکواڈور، پانامہ کے صدور اور سعودی عرب کے شاہی خاندان کے ممبران کے سامنے کھڑا رہا ہوں۔“
پرکنز کہتے ہیں، ”میں نے ان سے کہا، اگر آپ ہمارے مطابق کھیل کو کھیلتے ہیں تو میرے اس ہاتھ میں آپ اور آپ کے دوستوں کیلئے کئی ملین ڈالرز ہیں، بصورت انکار میرے دوسرے ہاتھ میں یہ بندوق ہے۔“
”میرے الفاظ کافی سفارتی تھے، لیکن ان الفاظ کا پیغام یہی تھا۔“
”میں ایک اکنامک ہٹ مین تھا۔“
اکنامک ہٹ مین مافیاز کے لیے کام کرنے والے ہٹ مین کی طرح ہوتے ہیں جو سام ، دام، ڈنڈ، بھید کا استعمال کرتے ہوئے اپنے باس کیلئے کام نکلواتے ہیں، عام اور اکنامک ہٹ مین میں فرق بس اتنا ہوتا ہے کہ وہ حکومتوں اور ممالک کیلئے انتہائی بڑے پیمانے پر فریب کا جال بن کر کام پورا کرتے ہیں۔
جان پرکنز کہتے ہیں، ”ہم جیسے اکنامک ہٹ مینوں (معاشی قاتلوں) نے ایک نئی عالمی معشیت تیار کی، جو ایک قسم کا سرمایہ دارانہ نظام ہے، جسے میں ’پریڈیٹوری کیپیٹل ازم‘ (مفاد پرست سرمایہ دارانہ نظام) کہتا ہوں۔“
”میں ان ممالک میں جاتا جن کے وسائل جیسے کہ تیل وغیرہ پر ہماری نظر ہوتی، ان ممالک کیلئے میں ورلڈ بینک اور اس کے ذیلی اداروں سے بڑے قرضے حاصل کرتا، لیکن یہ پیسہ حقیقی طور پر ان ممالک کو براہِ راست نہیں جاتا۔ بلکہ قرض کا یہ پیسہ ہماری بیکٹل، ہیلی برٹن، براؤن اینڈ روٹ اور ان جیسے ناموں والی کمپنیوں کو جاتا، جو ان ممالک میں بڑے انفرا اسٹرکچر پروجیکٹس پر کام کرتیں اور اس دوران بہت بڑا منافع کماتیں۔“
یہاں پر اب ذرا وزیراعظم شہباز شریف کے تھرڈ پارٹی والے بیان کو یاد کریں۔
پرکنز بتاتے ہیں کہ، ”ہماری یہ کمپنیاں پاور پلانٹس، انڈسٹریل پارکس اور ایسی چیزیں بناتیں جو اس ملک کے صرف چند امیر خاندانوں کو فائدہ پہنچاتیں، جو کئی انڈسٹریز کے پہلے ہی مالک ہوتے۔“
”لیکن اس ملک کے باقی عوام ایسے بڑے قرضے کے نیچے دبتے چلے جاتے جو وہ کبھی ادا نہ کرسکیں۔“
جان کہتے ہیں، ”تو ہم ان کے پاس دوبارہ جاتے اور کہتے کہ چونکہ اب آپ اپنا قرض ادا نہیں کر سکتے، تو اپنے وسائل، تیل یا جو کچھ بھی ہو، ہماری کارپوریشنوں کو انتہائی سستے داموں بیچیں، اداروں کو پرائیوٹائز کریں، اپنی یوٹیلٹیز (بجلی، گیس اور پانی کے ادارے)، اپنے اسکول اور جیلیں۔ ہماری کارپوریشنوں کو اس طرح کی ہر چیز فروخت کریں۔“
انہوں نے اپنی کتاب میں ایک پراسرار کاروباری خاتون کلاڈین کا ذکر بھی کیا۔
پرکنز نے بتایا کہ ”کلاڈین نے مجھے یہ بھی کہا اگر ان ممالک کے سربراہان آفر قبول کرنے سے انکار کریں تو کچھ لوگ جنہیں وہ ”جیکلز“ (گیدڑ) کہتی تھی میرے بالکل پیچھے کھڑے تھے۔“
یہ کہتے ہوئے انہوں نے اشارہ کیا جیسے ان کے ہاتھ میں بندوق ہو۔
”میں کبھی بندوق ساتھ نہیں رکھتا تھا، لیکن جیکلز رکھتے تھے۔“
انہوں نے مزید بتایا کہ ”میرا پہلا اسائنمنٹ انڈونیشیا میں تھا، جہاں اس وقت (1966 میں) ایک بدترین سول وار کا خاتمہ ہوا تھا اور دس لاکھ سے زائد لوگ مارے جاچکے تھے، اس ملک کی شہرت بہت زیادہ خراب تھی۔“
وہ ہنستے ہوئے کہتے ہیں کہ ”میں اعتراف کرتا ہوں جب میں جکارتہ میں اترا تو یہ سوچ کر میری ٹانگیں کانپ رہی تھیں کہ مجھے یہاں تین سال گزارنے ہوں گے۔ مجھے کوئی اندازہ نہیں تھا کہ کیا کرنا ہے میں نوجوان تھا۔“
”میں بس یہ جانتا تھا کہ مجھے ایک رپورٹ انڈونیشن حکومت کے سامنے پیش کرنی ہے اور انہیں اپنی کمپنی کے زریعے ایک انتہائی مہنگا بجلی ترسیل کا نظام بنانے کیلئے منانا ہے۔“
”خوش قسمتی سے اس سول وار کا فاتح صدر سوہارتو بنا، جو ایک ڈکٹیٹر بھی تھا، اس پروجیکٹ میں دلچسپی رکھتا تھا اور ساتھ ہی سی آئی اے اور پینٹاگون کی پناہ بھی چاہتا تھا۔“
جان پرکنز کہتے ہیں کہ ”اس دوران جب جب میں نے ٹھوکر کھائی، مجھے اٹھانے کیلئے وہاں کوئی نہ کوئی موجود ہوتا، کوئی نہ کوئی سرکاری عہدیدار اچانک انتہائی زبردست رپورٹ لے کر سامنے آجاتا کہ جو بجلی کا پروجیکٹ ہم بنانے کی بات کر رہے ہیں وہ اس ملک کو خوب اوپر لے جائے گا، ہارورڈ کا تربیت یافتہ ماہر حسابیات ایک فارمولہ لے کر آجاتا جو ثابت کرتا کہ اگر وہ یہ الیکٹریکل سسٹم بناتے ہیں تو سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔“
”بالآخر، انڈونیشیا کو اس کا قرضہ مل گیا، ہماری کارپوریشن نے بہت منافع کمایا، اور میری ترقی اکنامسٹ سے چیف اکنامسٹ پر ہوگئی۔“
جان پرکنز نے 1975 کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ ”اس وقت کولڈ وار کی گرمی بڑھتی جارہی تھی اور واشنگٹن کا خیال تھا کیوبا پوری دنیا میں کمیونزم پھیلا دے گا۔“
”اس سے نمٹنے کیلئے سی آئی اے نے برازیل، ارجنٹینا، چلی اور پورے براعظم میں دائیں بازو کی آمریتوں کو سپورٹ کرنے کیلئے ایک پروگرام ”آپریشن کونڈور“ کے نام سے شروع کیا۔“
آپریشن کونڈور سیاسی دباؤ اور ریاستی دہشت گردی کی ایک امریکی حمایت یافتہ مہم تھی، جس میں انٹیلی جنس آپریشنز اور مخالفین کا قتل شامل تھا۔ اسے سرکاری اور رسمی طور پر نومبر 1975 میں جنوبی امریکہ کے دائیں بازو کی آمریتوں نے نافذ کیا تھا۔
پرکنز نے بتایا کہ “ایکواڈور کے صدر ہائمی رولڈوس جمہوری طور پر منتخب ہوئے اور پانامہ ریاست کے سربراہ عمر توری ہوز نے آپریشن کونڈور کی سخت مخالفت کی۔
جان بتاتے ہیں کہ ”مجھے ان کے خیالات بدلنے کیلئے بھیجا گیا لیکن انہوں نے انکار کیا۔“
”رولڈوس کا پرائیویٹ جہاز کریش ہوا اور وہ مارا گیا، کئی لوگوں کو آج بھی لگتا ہے کہ وہ کوئی حادثہ نہیں تھا۔“
پرکنز نے پانامہ کے سربراہ کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ”توری ہوز نے کہا، اگر سی آئی اے نے میرے دوست ہائمی کو قتل کر دیا تو ممکنہ طور پر میں اس کا اگلا نشانہ ہوں۔“
”اور اس کے بعد تین مہینے سے بھی کم عرصے میں اس کا پراوئیویٹ جہاز بھی ملتے جلتے حالات میں کریش کرگیا اور وہ بھی مارا گیا۔“
لب کشائی کی ضرورت نہیں، صرف روشن بصیرت کی بات ہے۔ آس پاس دیکھیں، سوچیں، دماغ لڑائیں۔ جو نظر آئے وہ ہمیں بھی بتائیں۔