احمدیہ برادری کے سینکڑوں افراد نے چناب نگر تھانے کے باہر توہینِ مذہب کے درج مقدمے میں ہونے والی گرفتاری کے خلاف احتجاج کیا، جس کے باعث چنیوٹ سرگودھا روڈ پر کئی گھنٹے تک ٹریفک کی روانی متاثر رہی۔
پولیس نے احمدیہ کمیونٹی کے پانچ افراد کے خلاف توہین مذہب کے الزام میں مقدمہ درج کیا اور ان میں سے ایک کو ہفتہ کی رات گرفتار کیا۔
پولیس کے مطابق مذکورہ ملزم کو قرآن پاک کے اردو ترجمے کے ”ترمیم شدہ“ ورژن کی اشاعت اور تقسیم کرنے پر گرفتار کیا گیا ہے۔
مبینہ گرفتاری کے بعد احمدیہ برادری کے سینکڑوں افراد نے چناب نگر میں تھانے کے باہر احتجاجی مظاہرہ کیا۔
قرآن پاک کی مبینہ بے حرمتی تقریباً چار سال قبل ہوئی تھی لیکن ایف آئی آر میں پرنٹر، پبلشر، مصنف، کمپوزر، پروف ریڈر اور کچھ دیگر نامعلوم سہولت کاروں کے خلاف پاکستان پینل کوڈ (پی پی سی) کی دفعہ 295-بی (قرآن پاک کی بے حرمتی)، 295-C (حضور اکرم صلوسلم عل کے خلاف توہین آمیز کلمات) اور پنجاب قرآن پاک (پرنٹنگ اینڈ ریکارڈنگ) ایکٹ 2011 کے کوڈ کی دفعہ 9-1۔ 295 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
شکایت کنندہ تحفظ ختم نبوت فورم کے سیکرٹری جنرل محمد حسن معاویہ کے مطابق یہ واقعہ چار سال پرانا ہے، جس کے خلاف انہوں نے آئینی درخواست بھی دائر کی تھی۔
ایف آئی آر میں مزید کہا گیا ہے کہ لاہور ہائی کورٹ نے مارچ 2019 کے اپنے حکم میں متعلقہ محکموں کو ایسے پبلشرز کے خلاف کارروائی کرنے کا حکم دیا تھا۔
شکایت کے مطابق، ملزمان نے 7 مارچ 2019 کو منعقدہ ایک تقریب میں تبدیل شدہ قرآنِ پاک تقسیم کئے تھے۔
یہ تقریب نصرت جہاں کالج برائے خواتین کے لان میں منعقد ہوئی جہاں متعلقہ قوانین کی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے 62 لڑکوں اور لڑکیوں کو قرآنِ پاک تبدیل شدہ نسخوں کی کاپیاں دی گئیں۔
ایف آئی آر میں کہا گیا کہ تبدیل شدہ نسخوں پر 2016 میں محکمہ داخلہ پنجاب نے بھی پابندی لگائی تھی۔
چنیوٹ کے ڈی پی او آفس نے حسن معاویہ کی درخواست اور پنجاب قرآن بورڈ کے سیکرٹری عمر دراز کے خط کے ساتھ چناب نگر پولیس کو ای میل بھیجی تھی۔
مذکورہ ای میل میں پولیس کو حکم دیا گیا تھا کہ وہ کیس کی ایف آئی آر درج کریں اور ملزمان کے خلاف مناسب کارروائی کرتے ہوئے معاملے کی تحقیقات کریں۔
ہفتے کی رات کیس میں ہونے والی اس نئی پیش رفت کے بارے میں جاننے کے بعد، احمدیہ برادری کے سینکڑوں لوگوں نے ایف آئی آر اور اپنے رکن کی گرفتاری کے خلاف تھانے کے باہر احتجاج کیا۔
احمدیہ کمیونٹی کے ایک ترجمان نے کہا کہ یہ مقدمہ ’ارکان کو ملک بھر میں من گھڑت مقدمات میں پھنسانے کی ایک اور کوشش ہے۔‘
چناب نگر کو ربوہ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، اور یہ احمدیہ کمیونٹی کے ہیڈ کوارٹر کے طور پر کام کرتا ہے۔