سپریم کورٹ نے ریلوے اراضی سے متعلق کیس میں سیکریٹری ریلوے سے 2 ہفتوں میں مفصل رپورٹ طلب کرلی، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اربوں روپے قرض لینے سے پوری قوم مقروض ہوچکی ہے، پاکستان کو قرضہ نہیں، عوام کے لئے روزگار چاہیئے،اربوں ڈالرکا قرض لینےکوہی آج عوام بھگت رہے ہیں۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے بینچ نے ریلوے اراضی سے متعلق کیس کی سماعت کی۔
جس میں سیکرٹری ریلوے مظفر رانجھا نے عدالت کو بتایا کہ ایم ایل ون 9.8 ارب ڈالر کا منصوبہ ہے اور ایکنک اس کی منظوری دے چکا ہے۔
چیف جسٹس نے برہمی کا اظہارکرتے ہوئے کہاکہ اربوں ڈالرقرض لےکرمنصوبے لگانے کی بات ہرکوئی کرتاہے،ملک میں اربوں ڈالرکاانفرسٹرکچرپہلے سے موجود ہے اس پر کیاڈلیوری ہے؟اربوں ڈالرکا قرض لینےکوہی آج عوام بھگت رہے ہیں۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ چھٹیوں کے دوران سندھ میں ریل کا سفرکیا ہے، سندھ میں ریلوے لائنوں کےاطراف آج بھی سیلابی پانی کھڑا ہے ،بارشیں گرمیوں میں ہوئی تھیں پانی ابتک نہیں نکالاجاسکا، ریلوے افسران نےبتایا بلوچستان میں صورتحال سندھ سے بھی ابترہے، دی اکانومسٹ نے پاکستان کی سڑکوں پر ضمیمہ چھاپا تھا، عالمی ضمیمے کاعنوان تھا ”وہ سڑکیں جوکہیں نہیں جاتیں“۔
چیف جسٹس نے کہاکہ ملک کو یہ پرتعیش آسائشیں نہیں پرفارمنس اور استعداد کار چاہیئے، اربوںڈالروں کے منصوبے لگانے سے عدالت ایمپریس نہیں ہوگی، ریلوے کی زمینوں کے اطراف تجاوزات کی بھرمارہے،ریلوے لائن سے15 فٹ کے فاصلے پرلوگوں کےگھرہیں،ریلوے اپنی اراضی کی حفاظت نہیں کرے گا تو لوگ ان پر بیٹھ جائیں گے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے مزید کہا کہ ریلوے آپریشنز ہی صفر ہوگئے تو ان کمرشل سرگرمیوں کا کیا کریں گے؟ لاہورخانیوال سیکشن پر رکشہ ٹرین کی زد میں آیا دوافراد جاں بحق ہوئے، حادثہ بے وقوفی اور بدانتظامی کا نتیجہ تھا کوئی دہشت گردی نہیں، لوگ سارا دن ریلوے لائنوں پربیٹھے رہتے ہیں کیونکہ کوئی رکاوٹ نہیں ہے، ریلوے لائنزکو موٹروے کی طرح محفوظ کیوں نہیں بنایاجاتا تاکہ کوئی ان پرنہ آسکے؟۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت میں کہا کہ سپریم کورٹ نے سال 2021 میں ایک تفصیلی فیصلہ دیا ہے، فیصلے میں عدالت نے ریلوے اراضی لیز اور فروخت کرنے پر پابندی لگا دی ہے، عدالتی فیصلے کی وجہ سے گالف کلب کی لیز کا عمل رک گیا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ریلوے کو زمینوں کی فروخت اور لیز کا لائسنس نہیں دے سکتے، ریلوے پورا بزنس پلان بنا کر دے تب ہی جائزہ لیں گے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کوئٹہ میں ریلوے کے رہائشی کوارٹر فروخت ہوچکے ہیں جس پر سیکرٹری ریلوے نے کہا کہ جو زمین استعمال نہیں ہو رہی اسے کمرشل کرنا چاہتے ہیں۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے سوال کیا کہ ریلوے وفاقی حکومت سے بطور کمرشل ادارہ کام کرنے کی اجازت کیوں نہیں لیتا؟ ریلوے اس وقت مالی بوجھ تلے دبا ہوا ہے، ریلوے میں ملازمین ضرورت سے زیادہ، پنشنز کا بھی بوجھ ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ریلوے نے کئی قیمتی اراضیاں 500 روپے سالانہ پر 100 سال کے لئے لیز کر رکھی ہیں، اولڈ اسلام آباد ایئرپورٹ کے قریب ریلوے زمین پر ہاؤسنگ سوسائٹی بن گئی تھی، ریلوے کو زمین کمرشل نہیں آپریشنل مقاصد کے لئے دی گئی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سیکرٹری ریلوے بتائیں کس زمین پر کیا کرنا چاہتے ہیں پھر لیز سے متعلق سوچیں گے، عدالت اربوں روپوں کی باتوں سے اب متاثر نہیں ہوتی، ریلوے لائنز کے گرد تجاوزات بڑھ رہی ہیں، ریلوے ٹریک پر رکشہ چڑھنے سے بھی حادثہ پیش آیا تھا، اگر ادارے اپنی زمینوں کا تحفظ نہیں کریں گی تو تجاوزات ہی ہوں گی۔
جسٹس اعجازالاحسن نے سوال کیا کہ ریلوے سالانہ کتنا منافع کما رہا ہے؟ جس پر سیکریٹری ریلوے نے کہا کہ پچھلے سال ریلوے کا سالانہ منافع کا ٹارگٹ 58 ارب روپے تھا، ریلویز نے سال 2022 میں 62 ارب روپے کمائے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ ریل گاڑی کے انجن سے ایک موٹر خراب ہو جائے تو دوسرے ریل گاڑی کا نکال کر لگا لیتے ہیں، کیا ریلوے کا نظام ایسے چلا رہے ہیں؟۔
سیکریٹری ریلوے نے کہا کہ پاکستان ریلوے پل صراط پر چل رہی ہے،سیلاب کے دوران پاکستان ریلوے کو628 ارب روپے کا نقصان ہوا ہے، ریلویز نے سیلاب کے بعد خود ریلوے بحال کیں حکومت سے ایک پیسا بھی نہیں لیا، ملک میں سڑکوں کی تعمیر کو زیادہ اہمیت ملی۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ حکومت پنشنز کی مد میں ریلوے کو 40 ارب روپے دیتی ہے، حکومت پی آئی اے اور اسٹیل ملز کو بھی اربوں روپے دے رہی ہے، کیا سب کچھ بیچ کر ملک چلانا ہے؟۔
چیف جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کہ اس عدالت میں اربوں روپوں کے منصوبے کی بات نہیں کرنے دی جائے گی، کوئٹہ سے ریل کا راستہ منقطع ہے، چائنیز بھائیوں سے ہی پوچھ لیں کہ سیلاب کا کھڑا پانی کیسے نکالنا ہے، ریلوے کے نظام میں بہتری عام آدمی کی بڑی خدمت ہو گی، یہی ریلوے نظام پڑوس ملک میں چل رہا ہے تو پاکستان میں کیوں نہیں؟ پاکستان میں ریل گاڑی جس بھی اسپیڈ سے چلے منزل پر پہنچا ہی دیتی ہے، ریلوے سسٹم پاکستان کی لائف لائن ہے۔
عدالت نے سیکریٹری ریلوے سے 2ہفتوں میں زمین کی تفصیلات اورآئندہ کی منصوبہ بندی سےمتعلق مفصل رپورٹ طلب کرلی۔