نوٹ: کہانی کے کچھ حصے کچھ قارئین کے لیے پریشان کن ہو سکتے ہیں۔
سندھ کے ضلع سانگھڑ میں پولیس نے ایک ہندو خاتون دیا بھیل کے قتل کا معمہ حل کر لیا ہے، دیا کی مسخ شدہ لاش گزشتہ ماہ اس کے گھر کے قریب سے ملی تھی، پولیس نے چار مشتبہ افراد کو گرفتار کریا ہے، جن میں دو کالا جادو کرنے والے اور مقتولہ کا بھائی بھی شامل ہیں۔
پولیس افسران نے ہفتہ کو ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ مرکزی ملزم نے دیا بھیل کے بہیمانہ قتل کا اعتراف کر لیا ہے۔
مقامی طور پر ”بھوپے“ کے نام سے مشہور روپو بھیل جادو کرنے والوں میں سے ایک ہے اور بنیادی مشتبہ ملزم ہے۔
بینظیر آباد کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) یونس چانڈیو نے سانگھڑ میں کی گئی ایک پریس کانفرنس میں کہا، ”کیس میں پیش رفت اس وقت ہوئی جب ایک ملزم نے اعتراف جرم کیا۔ ملزم کے بارے میں پہلے دن سے شکوک و شبہات تھے۔“
چوالیس سالہ بیوہ دِیا بھیل جنہیں پہلے رپورٹنگ میں دَیا بھیل بھی کہا گیا، کی مسخ شدہ لاش 27 دسمبر 2022 کو سندھ کے ضلع سانگھڑ کے ڈپٹی صاحب گاؤں کے ایک کھیت میں ان کے گھر سے آدھا کلومیٹر دور ملی تھی۔
دیا بھیل کے بچوں نے بتایا کہ ان کی ماں فارم پر گھاس لینے گئی تھی، لیکن پھر ان کی ٹکڑوں میں بٹی لاش ملی جسے تیز دھار ہتھیار سے کاٹا گیا تھا۔ دیا بھیل کا سر بھی کٹا ہوا تھا۔
اس بہیمانہ قتل نے پورے سندھ، جہاں پاکستان میں ہندوؤں کی سب سے زیادہ تعداد آباد ہے، کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔
پیپلز پارٹی کے رہنما اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری اور سندھ کے وزیر برائے اقلیتی امور گیان چند ایسرانی نے واقعے کا نوٹس لیا۔
پولیس نے بتایا کہ کالے جادو کے ماہر روپو بھیل، لونیو بھیل، ساجن بھیل، اور متاثرہ کا بھائی دیا رام، چار مشتبہ افراد ہیں جنہوں نے اعترافی بیانات بھی دیے ہیں۔
سانگھڑ کے سینئیر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی) بشیر احمد بروہی کے ہمراہ پریس کانفرنس میں ڈی آئی جی چانڈیو نے بتایا کہ نواب شاہ کی انسداد دہشت گردی عدالت نے مرکزی ملزم کو پانچ روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا ہے۔
28 دسمبر 2022 کو سنجھورو تھانے میں پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 302 (قتل عمد کی سزا) اور انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ 6 (دہشت گردی) اور 7 (دہشت گردی کی کارروائیوں کی سزا) کے تحت نامعلوم افراد کے خلاف پہلی معلوماتی رپورٹ درج کی گئی۔
یونس چانڈیو نے بتایا کہ ”روپو بھیل پہلے اس علاقے کا رہائشی تھا۔ پھر وہ تین سے چار سال پہلے 15 سے 20 کلومیٹر دور دوسری جگہ چلا گیا۔“
پولیس نے بتایا کہ روپو بھیل کو پہلے شک کی بنیاد پر حراست میں لیا گیا، لیکن اسے چھوڑ دیا گیا۔ جب اسے دوبارہ گرفتار کیا گیا اور پوچھ گچھ کی گئی تو اس نے بشمول اپنے گرفتار ساتھیوں کے نام سب کچھ بتا دیا۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ دیا بھیل کی لاش کیوں مسخ کی گئی تو ڈی آئی جی نے مرکزی ملزم کے اعترافی بیانات کا حوالہ دیا۔
ایسے کالا جادو کرنے والوں کو اپنے عقیدے کے مطابق جادو کے لیے انسانی جسم کے اعضاء کی ضرورت ہوتی ہے۔
بے نظیر آباد کے ڈی آئی جی نے واضح طور پر بھارتی میڈیا کے اس تاثر کی تردید کی کہ خاتون کو اس کے مذہب کی وجہ سے نشانہ بنایا گیا۔
انہوں نے کہا کہ چاروں ملزمان کا تعلق ایک ہی برادری سے ہے۔
بھیل برادری سانگھڑ میں ہندوؤں کی برادریوں میں سے ایک ہے۔ سندھ میں کوہلی اور مگوار سمیت دیگر ہندو برادریاں بھی ہیں جو عمر کوٹ اور تھرپارکر کے علاقوں میں آباد ہیں۔
معلومات کے مطابق ملزم اب تک پولیس کو بتا چکا ہے کہ اس لرزہ خیز قتل کے پیچھے کالا جادو کارفرما تھا۔ تاہم جیسے ہی فرانزک لیبز سے ڈی این اے کے نتائج آئیں گے اور ڈیجیٹل ڈیٹا اکٹھا کیا جائے گا، مناسب تفتیش کی جائے گی۔
ایک کنگھی پولیس کو ملزمان تک لے گئی۔ پولیس کو قریبی علاقے سے گرفتار ایک مشتبہ شخص سے حاصل کی گئی معلومات کی بنیاد پر دیا کے جسم سے کاٹے گئے بال، ایک چاقو اور ایک بلیڈ ملا۔
سانگھڑ کے ایس ایس پی بشیر احمد بروہی نے کہا کہ ”ہم نے تقریباً 100 مشتبہ افراد کو تفتیش کا حصہ بنایا اور 42 افراد کے ڈی این اے کے نمونے لیے جو مشتبہ تھے۔ ہم نے کیلوں، کپڑوں اور دیگر بہت سی چیزوں سے نمونے اکٹھے کیے ۔“
انہوں نے امید ظاہر کی کہ اب تک کی تفتیش کے دوران اکھٹی کی گئی معلومات سے انہیں مزید شواہد ملیں گے۔
ایس ایس پی سانگھڑ نے کہا کہ چار میں سے دو مشتبہ افراد بھوپے ہیں، جیسا کہ انہوں نے وضاحت کی کہ بھوپے یا کالا جادو کرنے والے مبینہ طور پر ”مثبت اور منفی“ دونوں مقاصد کیلئے غیر معمولی طاقتوں کا استعمال کرتے ہیں۔
بروہی نے کہا کہ ”ملزمان کا خیال تھا جسم کے اعضاء کالے جادو میں ان کے لیے مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔“
بروہی نے مزید کہا کہ ملزمان کا جسم کی کھال اور دیگر جسمانی اعضاء اکٹھا کرنا قتل اور لاش کو مسخ کرنے کے محرکات میں سے ایک تھا۔
مرکزی ملزم نے بتایا کہ دیا بھیل کو قتل کرنے کے بعد انہوں نے جسم کے اعضاء قریبی علاقے میں چھپا رکھے تھے۔
تاہم، پولیس کے تفتیش کاروں کو دیا بھیل کے جسم کے حصے، سر اور چہرے سے ہٹائی گئی جلد نہیں ملی۔
پولیس افسر کا کہنا تھا کہ چونکہ ملزمان نے یہ جرم دن کی روشنی میں کیا تھا، اس لئے وہ جسم کے اعضاء قریب میں چھپا کر چلے گئے لیکن اگلی صبح جب وہ واپس آئے تو انہیں جانور نظر آئے۔
بروہی نے کہا، ”تو ممکن ہے کھال جانور لے گئے ہوں۔“
ایس ایس پی نے بتایا کہ چاقو، بلیڈ اور خاتون کی کنگھی کو فرانزک جانچ کے لیے بھیج دیا گیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ”ابتدائی طور پر پولیس کا ایک سونگھنے والا کتا مقتولہ کے بھائی کے گھر گیا۔“پولیس نے کیس کو حل کرنے کے لیے جیو فینسنگ، اسنیفر ڈاگز اور ٹریکرز کا استعمال کیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ”قتل میں دیا رام کی شمولیت کی تصدیق روپو نے بھی کی۔“
مقتولہ کے بیٹے سمر بھیل نے پولیس پریس کانفرنس پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے آج نیوز کو بتایا کہ ”مجھے نہیں معلوم کہ کیا ہوا تھا۔“
دیا کے شوہر کا ایک سال قبل انتقال ہو گیا تھا۔ ان کی چار بیٹیاں تھیں جن میں سے تین کی شادی ہو چکی ہے۔ ثمر ان کا اکلوتا بیٹا ہے۔
سمر نے کہا کہ ”میں پولیس کی تفتیش سے مطمئن ہوں۔“
پیپلز پارٹی کے قانون ساز کرشنا کمار نے بھارتی میڈیا کی جانب سے واقعے کی غلط رپورٹنگ کرنے پر مذمت کی۔
انہوں نے ایک ٹوئٹ میں کہا، ”دیا بھیل قتل کیس بالآخر حل ہو گیا۔ پولیس نے روپو بھیل کو گرفتار کرلیا جو مذموم مقاصد میں ملوث ہے۔ دیا کا اپنا بھائی بھی اس کے قتل کے وقت روپو کے ساتھ قریبی رابطے میں تھا۔“
وزیر اعلیٰ کے معاون خصوصی برائے انسانی حقوق سریندر والسائی نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ ”روپو بھیل نے قدیم کالا جادو کرنے کی کوشش کی جو لوگوں کو خوف میں مبتلا کرنے اور کنٹرول کرنے کیلئے کیا جاتا تھا۔“